سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ بین الاقوامی اور امریکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بقول ان کے، ’’ایران کا ردعمل مشرق وسطیٰ تک محدود ہوگا؛ جب کہ خطے میں کشیدگی پاکستان کے لیے پریشان کن ہوگی‘‘۔
انھوں نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ کے ساتھ فیس بک لائیو میں کیا۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’’جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کرکے مارا گیا۔ یہ امریکی انٹیلی جنس اور پنٹاگون کا مشترکہ آپریشن تھا‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’جنرل قاسم کی القدس فورس نے شام اور عراق میں داعش کو شکست دی تھی اور ایران کی اہم طاقت ہے۔ ایران اس کا نپا تلا جواب دے گا۔ ایران کا زیادہ اثر و رسوخ افغانستان، شام، لبنان، یمن اور عراق میں ہے۔ متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب میں امریکی فوجی تنصیبات اور تیس چالیس ہزار فوجی موجود ہیں۔ خطے میں ایران کی پراکسیز بھی موجود ہیں جہاں ایران براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے‘‘۔
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکہ ایران کشیدگی پریشان کن ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ’’گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ کوئى بھی محاذ آرائى پاکستان کے لیے اچھی نہیں۔ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ کشیدگی کم ہو اور ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ نہ بڑھےکیونکہ اس کے پاکستان کے اندر براہ راست اثرات ہو سکتے ہیں‘‘۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفیر ایران کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور ایران اور امریکہ کے درمیان پیغام رسانی کا ذریعہ ہے۔ ایران کے ساتھ مفاہمت کے سلسلے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
مائىک پومپیو کا جنرل باجوہ کو فون امریکی سفارتکاری کا حصہ ہے، جس کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ امریکہ کشیدگی کو مزید نہیں بڑھانا چاہتا۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے اس حملے کا ایک مقصد اپنے عوام کو انتخابات کے سال میں پیغام دینا ہے کہ وہ ایک طاقتور لیڈر ہیں اور پوری دنیا میں امریکی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔
خطے میں شیعہ سنی تفریق پر بات کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’’یہ معاملہ افغان جنگ کے بعد زیادہ بڑھا۔ اس تفریق کو ماضی میں اسپانسر کیا گیا اور پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ چند عناصر ایسے ہیں جو اس تفریق کو اپنے مفادات میں استعمال کر نے کے لیے اسپانسر کرتے ہیں‘‘۔