امریکی انتظامیہ کے اعلی عہدے داروں نے شام اور مسلم اکثریتی چھ دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو ، جن کے پاس امریکہ میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ گرین کارڈ موجود ہے اور وہ بیرون ملک سفر پر ہیں، ہدایت کی ہے وہ اس ملک میں موجود امریکی سفارت خانے یا قونصلیٹ سے رابطہ کرکے یہ معلوم کریں کہ آیا وہ امریکہ واپس جا سکتے ہیں یا نہیں۔
صدر ٹرمپ کے دستخطوں سے جاری ہونے والے ایک حکم کے تحت مسلم تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر لگائی جانے والی ان نئی پابندیوں کی زد میں گرین کارڈ رکھنے والے وہ تارکین وطن بھی آتے ہیں جن کا تعلق سات مسلم اکثریتی ملکوں سے ہے۔
واشنگٹن میں ہونے والی ایک نیوز بریفنگ میں سرکاری عہدے داروں نےنامہ نگاروں کو بتایا کہ گرین کارڈ رکھنے والوں کےمعاملات کی انفرادی طور پر جانچ پڑتا ل کی جائے گی۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ ہر کیس کو الگ سے دیکھا جائے گا اور اس پر تیزی سے کام ہوگا۔
جب یہ حکم جاری ہوا تو اس وقت بہت سے ایسے گرین کارڈ ہولڈر جن کا تعلق پابندی کی زد میں آنے والے ملکوں سے تھا، امریکہ واپسی کے سفر پر تھے۔ جب وہ امریکی ہوائی اڈوں پر اترے تو ایئر پورٹ حکام نے انہیں بھی حراست میں لے لیا۔
جن ملکوں کا پاسپورٹ رکھنے والوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان ملکوں سے امریکہ آنے والوں پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے کیونکہ امیگریشن اور پناہ گزینوں کے پروگرام کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئیٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تارکین وطن کو ایئرپورٹس پر روکے جانے خلاف دائر کیے گئے مقدمات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عہدے دار نے براہ راست جواب دینے سے انکار کیا لیکن یہ کہا کہ غیر ملکیوں کو امریکہ میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے مسلمانوں پر پابندی کی اصطلاح کو بھی مضحاکہ خیز قرار دیا۔
نیوز کانفرنس میں موجود ایک اور عہدے دار نے کہا کہ افغانستان، ملائیشیا، پاکستان، اومان، تیونس اور ترکی بھی مسلم اکثریتی ملک ہیں لیکن ان پر پابندی نہیں ہے۔