رسائی کے لنکس

’بھارت میں اقبال سے متعلق غلط فہمیوں کے بادل چھٹ رہے ہیں‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دہلی یونیورسٹی سے علامہ اقبال پر ایم فل، پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹرل فیلوشپ (پی ڈی ایف) کرنے والی اسکالر افسانہ حیات کبھی اقبال کے صرف ایک ہی شعر سے واقف تھیں اور ایسے خاندان سے تعلق رکھتی جہاں اقبال کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔

آج ان کا خیال ہے کہ اقبال کی شاعری، فکر اور فلسفے میں اتنی گہرائی ہے جسے سمجھنے کے لیے ایک زندگی کم ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا خاندان اردو دان نہیں ہے۔ جب وہ اتر پردیش کے شہر میرٹھ سے دہلی آئیں اور دہلی یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لیا تو خصوصی مطالعے کے موضوع کے انتخاب کے دوران انہوں نے اقبال کو پڑھنا شروع کیا اور پھر انھی کو اپنا موضوع بنانے کا فیصلہ کیا۔

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ انہیں ترانۂ ہندی ’سارے جہاں سے اچھا‘ یا بچوں کی دعا ’لب پہ آتی ہے‘ کے علاوہ اقبال کی شاعری کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ البتہ انہوں نے اقبال کا شعر’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟‘‘ سن رکھا تھا اور اس کی گرویدہ بھی تھیں۔

افسانہ حیات کے مطابق وہ اس شعر کا صحیح مطلب بھی نہیں سمجھتی تھیں لیکن اس سے بہت متاثر تھیں۔ ان کی اس پسندیدگی کا سفر آگے بڑھا اور انہوں نے اقبال کی شاعری پر پہلے ایم فل، پھر پی ایچ ڈی اور اس کے بعد پوسٹ ڈاکٹرل فیلو شپ( پی ڈی ایف) مکمل کی۔

’اقبال سے متعلق غلط فہمیاں‘

ڈاکٹر افسانہ حیات کہتی ہیں کہ بھارت میں اقبال کے بارے میں پہلے بھی بہت غلط فہمیاں تھیں اور اب بھی ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ تو ان پر بھارت کی مخالفت کا الزام لگاتا ہی ہے۔ بہت سے تعلیم یافتہ مسلمان بھی اپنی لاعلمی کی بنیاد پر کہہ دیتے ہیں کہ اقبال تو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے یا وہ پاکستان چلے گئے تھے۔ جب کہ ان کی وفات 1938 میں ہو گئی تھی۔

کیا جناح ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:03 0:00

اقبال کے بارے میں بھارت میں پائے جانے والی عام غلط فہمیوں کے متعلق دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر اور ماہر اقبالیات پروفیسر توقیر احمد کہتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد حالات ایسے نہیں رہے کہ اقبال کے بارے میں کوئی مثبت انداز میں بھی سوچتا۔ بلکہ ان دنوں اقبال کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ انہیں نظرانداز کیا جاتا تھا کہ اقبال پر کہیں گفتگو نہ ہو۔

ان کے مطابق رفتہ رفتہ حالات بدلے، تعصب و تنگ نظری کی فضا چھٹی اور اقبال کے بارے میں سوچنے اور پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو آگے چل کر یہ احساس بھی ہوا کہ اقبال کی شاعری مسائل کے حل پیش کرتی ہے۔ ان کے کلام میں ہر نظریے کے ماننے والوں کے مسائل کے حل موجود ہیں۔

اقبال پر پی ایچ ڈی کرنے والے ایک اور اسکالر اور دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد ڈاکٹر علی احمد ادریسی تقسیم ہند کے فوری بعد کے حالات کے ساتھ ساتھ عالمی حالات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری، خطوط اور خطبات میں جو باتیں کہی تھیں ان میں بہت سی آج درست ثابت ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے اقبال کے بارے میں غلط فہمی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صرف دہلی یونیورسٹی میں 1970 کے بعد سے اقبال پر اب تک ایک سو سے زائد ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو چکی ہیں۔

اقبال اور مسلمانوں کا الگ ملک

اقبال کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کا تصور پیش کیا تھا۔ بھارت میں ایک حلقے میں ان کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن بعض ماہرینِ اقبال کے مطابق خیال درست نہیں۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا نظامِ تعلیم کیسے کام کرتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:39 0:00

پروفیسر توقیر احمد کہتے ہیں کہ اقبال نے جنوری 1931 میں الہٰ آباد میں اپنے خطبے میں ’مسلم انڈیا وِدِن انڈیا‘ کی بات کی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم اکثریتی آبادی کا ایک خطہ ہو جہاں مسلمانوں کا اقتدار ہو۔ وہ الگ ملک کے حامی نہیں تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ تعصب اور غلط فہمی کی بنیاد پر اقبال کا مخالف ہے لیکن اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اقبال تو بہت بڑے محب وطن تھے۔ انہوں نے ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ جیسا ترانہ لکھا جو آج بھی تعلیمی اداروں اور سرکاری تقاریب میں گونجتا ہے اور حب الوطنی کے جذبے سے معمور ایسا ترانہ آج تک نہیں لکھا جا سکا۔

واضح رہے کہ علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں اور انہیں ریاستی سطح پر تصورِ پاکستان پیش کرنے والا مفکر قرار دیا گیا ہے۔

اردو نہ جاننے والوں میں اقبال کی شہرت

علی احمد ادریسی کے مطابق اقبال کو پڑھنے کا شوق اتنا زیادہ بڑھ رہا ہے کہ اب تو غیر رادو داں طبقہ بھی اقبال کا گرویدہ ہوتا جا رہا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ دہلی یونیورسٹی کے فلسفہ، تاریخ اور پولیٹیکل سائنس کے شعبوں میں بھی اقبال پر کام ہو رہا ہے اور ان پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ تقابلی مطالعے میں بھی اقبال کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں میں اقبال کو پڑھنے کی ایک وجہ مذہبی رشتہ بھی ہے۔ کیونکہ ان کی شاعری میں قرآن و حدیث کے حوالے ملتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے فارغ اور دہلی یونیورسٹی سے اقبال پر تخصص کرنے والے محمد اکرم بھی مذہبی افکار کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مدارس میں اساتذہ جب احادیث پڑھاتے ہیں تو سمجھانے کے لیے اقبال کی شاعری کا حوالہ دیتے ہیں۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقبال کے ہاں صرف مذہبی شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و فلسفے کی گہرائی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مدرسے کی تعلیم کے دوران اقبال کو سمجھنے کا ان کا محدود نظریہ تھا لیکن وہ اب اقبال کو وسیع تناطر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہندوستانیوں کی بیداری

معروف ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق کہتے ہیں کہ اقبال آزادی کے علم بردار، مزدوروں کے ہم نوا اور سرمایہ داری کے مخالف تھے۔ انہوں نے جب 1904 میں نظم ’تصویرِ درد‘لکھی تو وہ اردو ادب میں ایسی للکار تھی جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو انگریزوں کی حکومت کے خطرات سے ہوشیار کیا تھا۔

پروفیسر عبدالحق کے مطابق تحریک آزادی میں مختلف پہلوؤں سے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی عظمت کے گیت بھی گائے۔

ان کے مطابق اقبال نے عوام کے درمیان اتحاد کی دعوت دی اور فرنگی استحصال کی سازشوں سے باہر نکلنے کے لیے جھنجھوڑا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG