رسائی کے لنکس

توہینِ عدالت کیس: مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی، فیصل واوڈا کا انکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر معافی مانگوں۔ عدالت کارروائی کرنے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کرے: سینیٹر فیصل واوڈا
  • تحریک انصاف کے رؤف حسن نے ججز کو ٹاٶٹ کہا، مولانا فضل الرحمٰن نے ججز کو دھمکیاں دیں جب کہ شہباز شریف نے ججز کو کالی بھیڑیں کہا لیکن انہیں نوٹسز جاری نہیں ہوئے: فیصل واوڈا
  • معزز ججوں کی ساکھ یا اختیار کو بدنام کرنے کا تصور نہیں کر سکتا: مصطفیٰ کمال
  • اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو قابلِ عزت و احترام سمجھتا ہوں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں: رہنما ایم کیو ایم
  • سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کو پانچ جون کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے۔
  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بدھ کو توہینِ عدالت کیس کی سماعت کرے گا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما مصطفیٰ کمال نے توہینِ عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگ لی ہے جب کہ سینیٹر فیصل واوڈا نے معافی مانگنے کے بجائے عدالت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

دونوں پارلیمنٹیرین نے منگل کو سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کیس میں شوکاز نوٹسز پر اپنے اپنے جواب جمع کرا دیے ہیں۔ عدالت بدھ کو معاملے کی سماعت کرے گی جب کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دونوں رہنماؤں کو ذاتی حیثیت میں طلب بھی کر رکھا ہے۔

فیصل واوڈا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر معافی مانگیں اس لیے عدالت کارروائی کرنے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کرے جب کہ مصطفیٰ کمال نے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے دونوں پارلیمنٹیرین کو مبینہ عدلیہ مخالف بیان دینے پر توہینِ عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔

سپریم کورٹ میں جمع کراٸے گٸے اپنے بیان میں سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ انہوں نے کوٸی ایسی بات نہیں کی جس پر معافی مانگی جاٸے۔

فیصل واوڈا کے مطابق تحریک انصاف کے روف حسن نے ججز کو ٹاٶٹ کہا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر ججز کو دھمکیاں دیں جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ججز کو کالی بھیڑیں کہا لیکن انہیں نوٹسز جاری نہیں ہوئے۔

سینیٹر فیصل واوڈا کے مطابق انہوں نے عوام کی بات کی تھی اس لیے عدالت کوئی کاررواٸی کرنے کے بجاٸے تحمل کا مظاہرہ کرے۔

فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال نے کیا کہا تھا؟

سینیٹر فیصل واوڈا نے 15 مئی کو اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران جسٹس اطہر من اللہ پر تنقید کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ گمان ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ رات کے اندھیرے میں کسی سے نہیں ملتے، ان کا کسی پرانے خاص سے کوئی تعلق نہیں اور وہ کسی سیاسی جماعت کے میسنجر سے نہیں ملتے۔

اسی طرح مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ملک میں جعلی ڈگریوں، دوہری شہریت پر ایم این ایز، سینیٹرز کو گھر جاتے دیکھا لیکن عدلیہ جیسے ادارے میں قول و فعل میں تضاد آ رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ دوہری شہریت والے کسی شخص کو جج ہونا چاہیے؟

دونوں رہنماؤں کی پریس کانفرنسز کے بعد سپریم کورٹ نے 16 مئی کو از خود نوٹس لیا اور اگلے ہی روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے انہیں جواب جمع کرانے اور پانچ جون کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کا حکم دیا تھا۔

مصطفیٰ کمال کی معافی

ایم کیو ایم کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی مصطفی کمال نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ معزز ججوں کی ساکھ یا اختیار کو بدنام کرنے کا تصور نہیں کر سکتے۔

سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملک کے تمام ججوں خاص طور پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو قابلِ عزت و احترام سمجھتے ہیں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں۔

مصطفیٰ کمال نے عدالت سے توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG