رسائی کے لنکس

میانمار میں جاپانی صحافی دس سال کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے


جاپانی صحافی تورو کوبوتا (فائل فوٹو)
جاپانی صحافی تورو کوبوتا (فائل فوٹو)

ایک جاپانی سفارت کار نے جمعرات کو بتایا کہ میانمار کی ایک عدالت نے ایک جاپانی صحافی کو جولائی میں حکومت مخالف مظاہرے کی فلم بندی کرنے پر دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔

جاپانی سفارت خانے کے نائب سفیر تیتسو او کیتادا نے بتایا کہ تورو کوبوتا کو بدھ کو الیکٹرانک امورکے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سات سال اوراشتعال انگیزی کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

باور کیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف امیگریشن قانون کی خلاف ورزی کا الزام ابھی زیر غور ہے۔

الیکٹرانک معاملات کا قانون ایسے جرائم کا احاطہ کرتا ہے جن میں آن لائن غلط یا اشتعال انگیز اطلاعات پھیلانا شامل ہے، اوراس جرم پر سات سے 15 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اشتعال انگیزی یا اکسانے کے جرم میں بنیادی طور میں ایسی سرگرمیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے جو بدامنی کا باعث بنتی ہیں، میانمار کی فوجی حکومت اسےاکژر و بیشتر صحافیوں اور حکومت کے مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہے، قانون کے مطابق اس کی سزا تین سال قید ہے۔

میانمار کی فوجی حکومت کے خؒاف عوامی احتجاج (فائل فوٹو)
میانمار کی فوجی حکومت کے خؒاف عوامی احتجاج (فائل فوٹو)

کوبوتا کو 30 جولائی کو ملک کے سب سے بڑے شہرینگون میں سادہ لباس والی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھاجب وہ آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور فوج کے قبضے کے خلاف کئے جانے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی تصاویراورویڈیوزبنا رہے تھے۔

میانمار میں فوج کے اقتدار پرقبضے کے بعد کوبوتا حراست میں لئے جانے والےپانچویں غیر ملکی صحافی ہیں۔ مقامی پبلیکیشنز کے لیے کام کرنے والے امریکی شہریوں ناتھن مونگ اور ڈینی فینسٹر، اور پولینڈ کے فری لانسرز رابرٹ بوکیاگا اور جاپان کے یوکی کیتازومی کو اپنی سزا ئیں پوری کرنے سسے پہلے ہی ملک سے نکال دیا گیا۔

مجموعی طور پر تقریباً 150 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں نصف سے زیادہ کو رہا کر دیا گیا ہے۔

تاہم میانمار میں میڈیا پرسخت پابندیاں عائد ہیں اور آزاد میڈیا در پردہ ، یا بیرون ملک کام کرنے پر مجبور ہے۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG