رسائی کے لنکس

شمالی کوریا کے بیرون ملک ریستورانوں پر معلومات اکٹھی کرنے کا شبہ


بینکاک میں شمالی کوریا کے ایک ریستوران (فائل فوٹو)
بینکاک میں شمالی کوریا کے ایک ریستوران (فائل فوٹو)

ریستوران کے ایک سابق ملازم کا کہنا ہے کہ ان سرکاری ریستورانوں میں کام کرنے والی ویٹریسز گاہکوں کی معلومات اکٹھی کر کے شمالی کوریا کو فراہم کرتی ہیں۔

شمالی کوریا ریستورانوں کے اپنے بین الاقوامی نیٹ ورک کے ذریعے غیرملکیوں سے معلومات اکٹھی کر رہا ہے جن کی اکثریت جنوبی کوریا سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بات ایسے ہی ایک ریستوران کے سابق ملازم نے وائس آف امریکہ کو بتائی۔

اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا دنیا بھر میں 130 ریستوران چلا رہا ہے جن کی اکثریت چین میں ہے۔ ان ریستورانوں میں شمالی کوریا کے روایتی کھانے پیش کیے جاتے ہیں اور شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے ملازمین کام کرتے ہیں اور انہیں ملک کی شبیہ پیش کرنے کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

مگر شبہ ہے کہ ان ریستورانوں کی آڑ میں کچھ اور سرگرمیاں جاری ہیں۔

جنوبی کوریا اور مغربی میڈیا کے کچھ حصوں میں اس شبہے کا اظہار کیا گیا ہے کہ پیانگ یانگ ان ریستورانوں کو منی لانڈرنگ جیسی غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

ریستوران کے ایک سابق ملازم کا کہنا ہے کہ ان سرکاری ریستورانوں میں کام کرنے والی ویٹریسز گاہکوں کی معلومات اکٹھی کر کے شمالی کوریا کو فراہم کرتی ہیں۔

اس ملازم نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی مگر وائس آف امریکہ نے بیرون ملک ریستوران سے اس کے تعلق کی تصدیق کی ہے۔

سابق ملازم ’جے‘ نے ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے خط میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ویٹرسز کا کام گاہکوں کی ذاتی معلومات اکٹھی کرکے اپنے سپروائزر کو دینا ہے۔ وہ جنوبی کوریا کے شہریوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔‘‘

معلومات اکٹھی کرنے کے مشن کی نگرانی شمالی کوریا کی وزارت ریاستی سلامتی کے حکام کرتے ہیں۔ یہ وزارت سلامتی اور انٹیلی جنس معاملات کی نگرانی کرتی ہے۔ ہر عہدیدار 10 سے 20 ویٹرسز کی نگرانی کرتا ہے۔

شمالی کوریا کا بیرون ملک کاروبار جنوبی کوریا کے متمول سیاحوں اور کاروباری افراد پر منحصر ہے۔

جے نے کہا کہ ’’60 سے 80 فیصد گاہک جنوبی کوریئن ہیں۔ ان کے بغیر ہمارا گزارا ممکن نہیں۔‘‘

یہ واضح نہیں کہ یہ ریستوران کتنا پیسہ بناتے ہیں۔ تاہم جے کے مطابق ان کی آمدن کا بڑا حصہ حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے اور ملازموں کے لیے بہت کم پیسہ بچتا ہے۔ جے کے بقول وہاں کام کرنے والی ویٹرسز روزانہ 12 گھنٹے کام کرنے کے بعد ماہانہ 10 سے 15 ڈالر کماتی ہیں۔

بیرون ملک چار سال کام کے بعد وطن واپسی پر انہیں 2500 ڈالر اور گھریلو سامان مثلاً ٹیلی وژن یا واشنگ مشین دی جاتی ہے۔

ویٹرسز سخت نگرانی میں کام کرتی ہیں اور انہیں بہت کم نجی آزادی حاصل ہے۔

ملک کے جوہری پروگرام پر عالمی پابندیاں عائد ہونے کے بعد بیرون ملک ریستورانوں کا کاروبار پیانگ یانگ کے لیے نقد آمدن کا اہم ذریعہ بن گئے ہیں۔

حال ہی میں جنوبی کوریا کی طرف سے اپنے شہریوں کو ان ریستورانوں میں جانے سے منع کرنے کے بعد انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ اقدام شمالی کوریا کی طرف سے جوہری اور میزائل تجربات کے بعد کیا گیا۔

جمعے کو شمالی کوریا کی یونیفکیشن وزارت نے اعلان کیا کہ بیرون ملک ایک ہی ریستوران میں کام کرنے والے شمالی کوریا کے 13 شہری منحرف ہو گئے ہیں۔

یونیفیکشن وزارت کے ترجمان نے کہا کہ یہ تعداد منحرفین کی عمومی تعداد سے زیادہ ہے۔

XS
SM
MD
LG