عبد الحئی بالاج کے بہنوئی شہ بہروز اور خالہ زاد بھائی شہ بہار حال ہی میں بلوچستان سے لاپتہ ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی سے جبری گم شدگی کے قانون کی منظوری سے انہیں امید تو بندھی ہے لیکن وہ عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قانون تو منظور ہو گیا ہے اب حکومت کو چاہئے کہ اقدامات بھی کرے تاکہ ہمارے پیارے گھروں کو واپس آئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے یہ قانون بہتری کے لیے لایا گیا ہو گا اور اس سے لاپتہ افراد کے خاندانوں کی داد رسی ہو سکے گی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی سے پیر کو منظور ہونے والے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا قانون وزارتِ انسانی حقوق کی طرف سے 2019 میں تیار کیا تھا اور اس کے بعد سے التواء کا شکار رہا۔
جبری طور پر لاپتہ افراد کے حوالے سے قانونی بل ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) میں پیش کیا گیا جسے قانونی جائزے کے لیے وزارتِ قانون کو بھجوایا گیا تھا۔ وزارتِ قانون کے جائزہ کے بعد رواں سال اکتوبر میں اس قانون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔
وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس بل کے قانونی جائزے میں تاخیر پر وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے وزارتِ قانون کو یہ بل جلد منظور کرانے کی ہدایت بھی کی تھی۔
پاکستان میں جبری طور پر لاپتا ہونے کے واقعات ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے بعد کئی افراد رہا کیے جا چکے ہیں تاہم متعدد افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خفیہ اداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم سیکیورٹی اداروں نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔
جبری گمشدگی کی تعریف
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل میں جبری گمشدگی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 'ریاست کے کسی نمائندے یا ایک فرد یا افراد کے گروہ، جو ریاست کے اختیار، مدد یا رضا مندی کے تحت کام کر رہا ہو، کے ہاتھوں کسی کی گرفتاری، حراست، اغوا، یا کسی کی آزادی سے محرومی کی کوئی بھی دوسری قسم، اور اس کے بعد (گمشدہ شخص کی) آزادی کی محرومی کے اعتراف سے انکار کرنا یا گمشدہ شخص کی حالت یا ٹھکانا خفیہ رکھنا جبری گمشدگی ہے۔ اور یہ سب کچھ (جبری گمشدگی) کرنے والے شخص کو قانون کا تحفظ حاصل نہیں ہو گا۔‘
بل میں جبری گمشدگی پر عمل کرنے والوں کے علاوہ اس کا حکم دینے، یا اس پر اکسانے والوں کو بھی جرم میں ملوث قرار دیا گیا ہے اور اس میں ملوث فرد یا افراد کی بغیر وارنٹ گرفتاری اور زیادہ سے زیادہ دس سال قید کے علاوہ جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔
’قانون مؤثر نہیں ہوگا‘
انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہو گا۔
وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ قانونی طور پر یہ تعین کیا گیا کہ جبری گم شدگی غیر آئینی ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کر کے اسے جرم قرار دینا خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم نے وزیرِ قانون سے بات چیت میں خاص طور پر تفتیش کے طریقہ کار پر تحفطات کا اظہار کیا تھا کہ تحقیقات کرنے والا ایک پولیس اہل کار کس طرح سے طاقت ور اداروں کے افراد سے تفتیش ک رسکے گا؟
’اہل خانہ قانونی کارروائی سے کترائیں گے‘
وہ کہتے ہیں کہ اس قانون میں ترمیم شامل کی گئی ہے کہ کسی ادارے کے سربراہ پر کمشدگی کا الزام لگانے والے کو سزا ہو سکے گی۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے سے متعلق مجوزہ قانون میں کسی کے غائب ہونے سے متعلق غلط بیانی کی صورت میں درخواست کنندہ کو سزا اور جرمانہ کی شق شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔
لاپتہ افراد سے متعلق قانون سازی کرتے وقت قومی اسمبلی نے اس ترمیم کی بھی منظوری دی ہے۔
نصراللہ بلوچ کہتے ہیں کہ قانون میں اس شق کے اضافے سے جو لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، انہیں بقول ان کے آئینی حق استعمال کرنے سے روکا گیا ہے۔
’مکمل حل نہیں!‘
پاکستان میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن حنا جیلانی کہتی ہیں کہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے حوالے سے قانون سازی کاغذی کارروائی کے طور پر تو اچھی لگتی ہے البتہ اس کے عملی نتائج سامنے آنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ بل افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی ذمہ داری انفرادی حیثیت میں عائد کرتا ہے، کسی ادارے پر نہیں۔
’قانون اداروں کو جوابدہ نہیں بناتا‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن حنا جیلانی کے مطابق لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ خفیہ اداروں کو جواب دہ بنانے سے حل ہو گا اور ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو خفیہ اداروں کو اپنی حدود سے باہر جانے پر جواب دہ بنائے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لیے بنایا گیا کمیشن ہر مہینے کہتا ہے کہ لوگوں کو بازیاب کرایا گیا ہے لیکن یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ اس کے ذمے داروں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی۔
حنا جیلانی کے خیال میں حکومت سمجھتی ہے کہ ایک غیر مؤثر قانون لا کر اس معاملے کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ 2011 میں حکومتِ پاکستان نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور ذمے داران کے خلاف کاروائی کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا۔
اس کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے 2018 میں سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کو بتایا تھا کہ 153 فوجی اہل کار شہریوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
جبری طور پر لاپتہ افراد کے کمیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کو تقریباً سات ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے پانچ ہزار کو حل کیا جا چکا ہے۔