پاکستان کے قومی احتساب بیورو نے بدعنوانی کے 150 بڑے مقدمات کی فہرست عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی ہے جن میں موجودہ وزیراعظم نواز شریف سمیت کئی حالیہ اور سابقہ حکومتی عہدیداروں کے نام شامل ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ نیب کی کارکردگی سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کر رہا ہے جس کے سامنے پیش کی گئی فہرست کے مطابق ان اہم شخصیات کے خلاف مالی بے ضابطگیوں، اراضی کی غیر قانونی طور پر خریدو فروخت اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق الزامات کی تحقیقات اور تفتیش کی جا رہی ہے۔
اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں میں نیب کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی شامل ہیں جن پر لاہور کے قریب واقع رائیونڈ سے جاتی عمرہ میں اپنے گھر تک سڑک کی تعمیر کے لیے 12 کروڑ اور 60 روپے خرچ کرنے کا الزام ہے جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے سمدھی اسحاق ڈار پر اپنے ذرائع سے زائد اثاثہ جات بنانے کے الزام کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
ایسے ہی الزامات کے تحت سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف بھی مقدمہ زیر سماعت ہے جب کہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین پر بھی بتائے گئے ذرائع سے زائد آمدن کے الزام کی انکوائری ہو رہی ہے۔
نیب کی طرف سے بدعنوانی کے بڑے معاملات سے متعلق تحقیقات اور تفتیش اپنی جگہ لیکن جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک موقر غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان میں بااثر شخصیات کے خلاف ہونے والی تحقیقات یا مقدمات اتنی طوالت اختیار کر جاتے ہیں کہ یہ اپنی اہمیت ہی کھو دیتے ہیں۔
"تحقیقات میں اگر کوئی ایسی قابل اعتماد چیزیں ہوں کہ جس سے مقدمہ چلایا جا سکے تو اس سے تو (ان شخصیات کو) پریشانی ہو سکتی ہے، لیکن بااثر لوگ ایسے زیرک قانون دانوں کو اپنا وکیل کرتے اور یہ مقدمے اتنے طویل ہو جاتے ہیں کہ یہ اپنی اہمیت ہی کھو دیتے ہیں۔"
عدالت عظمیٰ میں نیب کے سربراہ اور دیگر عہدیداروں اور ادارے کے کام کرنے کے طریقہ کار کی جانچ پڑتال سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس پر تین رکنی بینچ نے رواں سال کے اوائل میں سماعت شروع کی تھی۔