رسائی کے لنکس

سندھ کے 16 سیاست دانوں کے خلاف نیب کی تحقیقات جاری


سندھ ہائی کورٹ کی عمارت (فائل فوٹو)
سندھ ہائی کورٹ کی عمارت (فائل فوٹو)

صوبائی اسمبلی میں نیب کے قانون کے خاتمے کا بل منظور کرانے کے بعد پہلی بار وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت میں اس کی مخالفت کی ہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے سندھ میں 'قومی احتساب بیورو' (نیب) کا دائرہ اختیار ختم کرنے سے متعلق صوبائی اسمبلی کے منظور کردہ مسودۂ قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کھل کر اس کی مخالفت کردی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں نیب کے قانون کے خاتمے کا بل منظور کرانے کے بعد پہلی بار وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت میں اس کی مخالفت کی ہے۔

بدھ کو سندھ ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل سلمان طالب الدین نے بِل کو کالعدم قرار دینے کے لیے دائر کی جانے والی درخواستوں پر عدالت کو وفاقی حکومت کے موقف سے آگاہ کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کا مؤقف درخواست گزاروں کے حق میں ہے۔

دوسری جانب قومی احتساب بیورو نے کہا ہے کہ وہ سندھ میں 16 سیاست دانوں اور 350 سے زائد بیوروکریٹس کے خلاف کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کی تحقیقات کررہا ہے۔

نیب نے سندھ میں جاری اپنی تحقیقات سے متعلق ایک رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر عدالت میں پیش کردی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت سندھ کے 16 سیاست دانوں اور 350 سے زائد بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات مختلف مراحل میں ہیں جبکہ دو سیاست دانوں کے خلاف مقدمات احتساب عدالتوں کو بھیجے جاچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جن سیاست دانوں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں ان میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی شرجیل انعام میمن، گیان چند ایسارانی، دوست محمد، اعجاز شاہ شیرازی، نواب تیمور تالپور، صوبائی وزیر محمد علی ملکانی، ضیا حسن النجار، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین، سابق رکنِ صوبائی اسمبلی غلام قادر پلیجو اور آغا طارق شامل ہیں۔

'نیب' کی فہرست میں سابق سینیٹر اور پاک سرزمین پارٹی کے بانی سید مصطفیٰ کمال، ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی رؤف صدیقی اور عادل صدیقی کے نام بھی موجود ہیں۔

'نیب' کی جانب سے عدالت میں پیش کی جانے والی فہرست میں 350 سے زائد بیوروکریٹس بھی شامل ہیں جن میں کئی سابق چیف سیکریٹریز، سیکریٹریز، ایڈیشنل سیکریٹریز، ڈپٹی کمشنرز، ڈائریکٹر جنرل سندھ بلدنگ کنٹرول اتھارٹی، جامعات کے وائس چانسلرز، کئی اعلیٰ پولیس افسران حتیٰ کہ پرائمری اسکول ٹیچرز اور ہیڈماسٹرز سمیت مختلف محکموں کے افسران کے نام بھی ہیں۔

صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے نیب قانون کے خاتمے کا بِل منظور کیے جانے کے بعد نیب کا صوبے میں کام غیر قانونی ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر نظرِ ثانی کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے درخواست دائرکردی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی قانون سازی کے خلاف حکمِ امتناع بھی جاری نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کارروائی کو آئین کے آرٹیکل 69 اور 127 کا تحفظ حاصل ہے۔

تاہم عدالت نے مقدمے کی سماعت 11 سمتبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکومتِ سندھ کو حکم دیا ہے کہ نیب کو کام جاری رکھنے دیا جائے اور اس کی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG