امریکی خلائی ادارے ناسا نے زمین کے سائز کی ایک نئی دنیا دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ نیا سیارہ یا 'نئی دنیا' سورج کے مقابلے میں حجم کے لحاظ سے 40 فی صد چھوٹا ہونے کے ساتھ کم گرم اور زمین سے 100 نوری سال کی دوری پر خلا میں موجود ہے۔
سیارے پر پانی کی موجودگی کے بارے میں حتمی طور پر ابھی کچھ نہیں بتایا گیا تاہم تصور کیا جارہا ہے کہ سیارے پر پانی کے ساتھ ہوا بھی موجود ہو سکتی ہے۔
ادارے نے اس حوالے سے جاری معلومات میں کہا ہے کہ اس "نئی دنیا" کو سیارے ڈھونڈنے والی سیٹیلائٹ 'ٹیس' کی مدد سے دریافت کیا گیا ہے۔
ناسا کی جاری کردہ معلومات کے مطابق نیا سیارہ زمین کے مقابلے میں 20 فی صد بڑا ہے اور 37 دن میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
سورج سے زمین کو جتنی توانائی پہنچتی ہے، نئے سیارے کو اس کی 86 فی صد توانائی حاصل ہوتی ہے جب کہ سیارے کا ایک رخ مسلسل بادلوں میں چھپا رہتا ہے۔
متعدد ماہرین فلکیات جدید آلات کی مدد سے اس سیارے کا مشاہدہ کریں گے تاکہ اس سے متعلق مزید اور کچھ نئے اعداد و شمار حاصل کیے جاسکیں۔
ناسا نے اس سیارے کی جسامت مختلف ماڈلز کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی ہے۔
فرانس کے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ریاست ہوائی کے شہر ہونولولو میں 'امریکن ایسٹرونومیکل سوسائٹی' کے سالانہ اجلاس میں ناسا کی 'جیٹ پروپلشن لیبارٹری' کی جانب سے بتایا گیا کہ زمینی سائز کے نئے سیارے کو 'ٹی او آئی 700 ڈی' کا نام دیا گیا ہے۔
سیارے کی دریافت کے بعد اس کی موجودگی کی تصدیق 'اسپیٹزر اسپیس ٹیلی اسکوپ' سے بھی کی گئی ہے۔
اے ایف پی کا کہنا ہے کہ نئی دریافت سے پہلے بھی اسی طرح کے کچھ دوسرے سیارے 'کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ' کی مدد سے دریافت ہو چکے ہیں۔ لیکن 'ٹی ای ایس ایس' کی یہ پہلی دریافت ہے۔ 'ٹی ای ایس ایس' ایک سیٹیلائٹ ہے جسے 2018 میں لانچ کیا گیا تھا۔
ناسا کے 'ایسٹرو فزکس ڈویژن' کے ڈائریکٹر پال ہرٹز کے مطابق 'ٹی ای ایس ایس' یا 'ٹیس' کو قریبی ستاروں کے چکر لگاتے ہوئے زمین کے سائز والے سیارے تلاش کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔'ٹیس' آسمان کے ایک حصے کو فوکس کرتا ہے تاکہ وہ یہ پتا لگا سکے کہ سیارے، ستاروں کے سامنے سے کس طرح گزرتے ہیں۔
ستاروں کے سامنے سیارے آ جانے ستاروں کی روشنی عارضی طور پر مدھم ہوجاتی ہے جس سے ٹی ای ایس ایس کو کسی سیارے کی موجودگی، اس کے سائز اور مدار کا اندازہ ہو جاتا ہے۔