واشنگٹن: —
فلسطین اور اسرائیل کی نصابی کتب میں تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ماننے سے بھی انکار کیا گیا ہے۔
مقدس سرزمین کے مذہبی اداروں کی کونسل کی جانب سے مسلمان، یہودی اور عیسائی سماجی سائنسدانوں کے ایک پینل نے کہا ہے کہ نوجوان ذہنوں کو ان نصابی کتب کے ذریعے باور کروایا جارہا ہے کہ وہ اس زمین کے حصول کے لیے ایک صدی سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
مقدس سرزمین کے مذہبی اداروں کی کونسل کی جانب سے مسلمان، یہودی اور عیسائی سماجی سائنسدانوں کے ایک پینل نے کہا ہے کہ نوجوان ذہنوں کو ان نصابی کتب کے ذریعے باور کروایا جارہا ہے کہ وہ اس زمین کے حصول کے لیے ایک صدی سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
صحافی نوح براوننگ نے پیر کے روز شائع ہونے والےاپنے مضمون میں امریکی حکومت کے تعاون سے کی جانے والی ایک تحقیق کےحوالے سے تحریر کیا ہے کہ سکول کی نصابی کتب میں ایسی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں جو عام لوگوں کو اس تنازع کا حصہ بننے پر اکسا سکیں۔
اسرائیل کی تل اییب یونیورسٹی سے وابستہ نمایاں محقق ڈینئیل نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنازعات کے شکار معاشرے ایک دوسرے کو بلکہ ان کی شناخت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل کی تل اییب یونیورسٹی سے وابستہ نمایاں محقق ڈینئیل نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنازعات کے شکار معاشرے ایک دوسرے کو بلکہ ان کی شناخت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کو امداد دینے والے ممالک نے تشدد پر اکسانے کے اسرائیلی الزامات کی تحقیقات کی اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں اطراف اس نوع کی نصابی کتب موجود ہیں۔
اس تحقیق پر جہاں فلسطین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے وہاں اسرائیل نے اسے جانبدار اور غیر پیشہ ورانہ قرار دیتے ہوئے اس تحقیق کا بائیکاٹ کیا ہے۔
لسانی تحقیقی ٹیم نے 168 درسی کتب پر تحقیق کی اور دوسرے ملک کے تذکرے کی پانچ درجے ’انتہائی منفی تا انتہائی مثبت‘ سطح سے موازنہ کیا۔ اس پیمائش کے مطابق فلسطینی کتب میں دوسرے فریق کا تذکرہ 84 فیصد منفی یا انتہائی منفی کے درجے پر آیا جبکہ یہ صورتحال اسرائیل کی 49 فیصد ریاستی اور 73 فیصد مذہبی مدرسوں میں بتائی گئی ہے۔
یروشلم کی ایک تھینک ٹینک کی تحقیق کےمطابق نصاب میں ایک دوسرے سے متعلق تذکرہ ’انتہائی منفی‘ انداز میں کیا گیا ہے۔
فلسطین میں بارہویں جماعت کی ایک درسی کتاب میں اسرائیل فلسطین تنازعے کی بنیادی وجہ فلسطین پر صیہونی قبضے اور فلسطین کے لوگوں کےحقوق کی پامالی قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیل میں ایک چوتھی جماعت کی کتاب میں یہ پڑھایا جاتا ہےکہ اسرائیل دشمنوں میں گھرا ایک نومولود ملک ہے جس کی مثال ایک میمنے کی سی ہے جو ستر بھیڑیوں کے گھیرے میں ہو۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ریاستی سکولوں میں ماضی کےمنفی پہلو موثر انداز میں اجاگر کیے جاتے ہیں، جیسے 1948ءمیں غیرمسلح فلسطینی شہریوں کے قتل عام کا معاملہ۔
اسرائیل اور فلسطین کی نصابی کتب میں ایک دوسرے کے نقشے کو یا تو سرے سے دکھایا ہی نہیں جاتا یا پھر اُسے ’عارضی سرحد‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اسرائیل نے1967 ء کی جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا تھا جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں، جبکہ 2005 ءمیں وہ غزہ کو واپس کر چکا ہے۔
فلسطینیوں کو اُن کے دارالحکومت کے طور پر مشرقی یروشلم کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ میں ایک ریاست قائم کرنے کی کوشش پر اُن سے امن مذاکرات کو 2010 ءمیں منجمد کر دیا گیا تھا۔
مغربی کنارے میں ’محدود خود مختاری‘ اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے قومی شناخت اور اداروں کی تعمیر کی جدوجہد جاری ہے۔
فلسطینی سکولوں میں پڑھائی جانے والی مصر اور اردن کی نصابی کتب میں ترامیم اور بعدازاں 2000 ءمیں اپنے نصاب کی تیاری میں یہودیوں کے حوالے سے متنازع باتوں کو بتدریج کم کیا گیا ہے، لیکن اسرائیلی اور امریکی حکام اب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ فلسطین کی نصابی کتب نفرت کو فروغ دے رہی ہیں۔
اس حالیہ تحقیق کےلیےامریکی وزارت خارجہ نے پانچ لاکھ ڈالر فراہم کیے تھے، لیکن اس رپورٹ کو جانبدار قرار دیا گیا ہے۔