پاکستان کی پارلیمنٹ نے جمعرات کو اپنے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے 1999 کے آرڈیننس میں مزید ترمیم کے دونوں بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیے ہیں۔
یہ دونوں بل صدرعارف علوی نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں میں ’’غور اور تفصیلی بحث” کے لیے واپس بجھوائے تھے۔
الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کی منظوری سے تحریکِ انصاف کی گزشتہ حکومت کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق اور عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی ترامیم ختم ہو گئی ہیں۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیرِ پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے الیکشن اصلاحات کا بل ایوان میں پیش کیا۔
اس بل کے ذریعے انتخابات کے 2017 کے ایکٹ کے سیکشن 94 اور سیکشن 103 میں ترامیم کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کی گزشتہ حکومت میں کی گئی ترامیم کو واپس لیا گیا ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات کا ترمیمی بل کثرتِ رائے سے منظور کیا گیا تھا تاہم موجودہ حکمران اتحاد نے اس وقت ان بلوں کی مخالفت کی تھی۔
صدر عارف علوی نے گزشتہ ہفتے ان بلوں پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں وزیر اعظم شہباز شریف کو واپس کر دیا کیونکہ انہیں پیش کیے جانے سے قبل آرٹیکل 46 کے تحت قانون سازی کی تجویز کے بارے میں ’’مطلع نہیں کیا گیا تھا”۔
ڈاکٹر علوی نے یہ بھی نوٹ لکھا تھا کہ بلوں کو ’’جلد بازی میں اور مناسب احتیاط کے بغیر” منظور کیا گیا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ دونوں بلوں کے ’’معاشرے پر دور رس اثرات” ہیں اور ان پر تفصیل سے بات ہونی چاہیے تھی۔
قومی اسمبلی نے تحریک انصاف حکومت کی انتخابی اصلاحات کو ختم کرنے کے بل کو منظور کیا تھا جس میں سمندر پار پاکستانیوں کو آئی ووٹنگ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔اس ترمیم کے ذریعے نیب کے آرڈیننس میں بھی ترمیم کی گئی تھی۔
صدر کی جانب سے بلوں پر دستخط کرنے سے انکار کے بعد وفاقی حکومت نے ان کی منظوری کے لیے جمعرات کو مشترکہ اجلاس بلا کر ان بلوں کو منظور کروایا۔
پلڈاٹ کے عہدے دار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے بھی اتفاق رائے کے بغیر انتخابی قوانین منظور کروائے تھے جنہیں موجودہ حکومت نے نئی قانون سازی کے ذریعے ختم کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اچھا ہوتا کہ یہ قانون سازی اتفاق رائے سے ختم کی جاتی۔ لیکن یہ اتفاق رائے اس وجہ سے بھی نہیں ہوسکا کیونکہ تحریک انصاف پارلیمنٹ سے باہر ہے اور حکومت و حزب اختلاف میں ایک طرح سے ڈیڈ لاک پایا جاتا ہے۔
ان کے بقول اگر اس قانون سازی کو ختم نہ بھی کیا جاتا تو اس میں ایک شق موجود تھی کہ اگر الیکشن کمیشن یہ سمجھے کہ ووٹر کی رازداری اور تحفظ یقینی نہیں ہے تو اس قانون پر عملدرآمد نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت جامع انتخابی اصلاحات چاہتی ہے اور اس مقصد کے لیے اسپیکر نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی عدم شمولیت کی وجہ سے کمیٹی نے تاحال کام کا آغاز نہیں کیا ہے۔
تحریک انصاف نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے ان قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اس قانون سازی پر عدالت سے رجوع کرسکتی ہے تاہم اگر نیا قانون آئین سے متصادم یا قانونی ضروریات کو پورا کیے بغیر منظور کیا گیا ہے تو عدالت اس پر پارلیمنٹ کو نظر ثانی کا کہہ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا صدر کی جانب سے بلوں پر نظرِثانی کی قانونی ضرورت کو حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروا کر پورا کردیا ہے اور اب یہ بل دس دن کے اندر خود بخود گزٹ آف پاکستان کے ذریعے قانون بن جائیں گے۔
آرٹیکل 75(2) میں لکھا ہے: ’’جب صدر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو کوئی بل واپس کر دے گا، تو پارلیمنٹ اس پر مشترکہ اجلاس میں دوبارہ غور کرے گی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے دوبارہ منظوری کی صورت میں اسے صدر کے سامنے پیش کیا جائے گا اور صدر 10 دنوں کے اندر اپنی منظوری دے گا۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں عام انتخابات متنازعہ ہی رہیں گے کیونکہ تحریک انصاف نے اس قانون سازی پر بھی اعتراضات اٹھا رکھے ہیں اور عمران خان الیکشن کمیشن پر بھی عدم اعتماد کر چکے ہیں۔