سابق وزیر اعظم نواز شریف ان دنوں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ نواز شریف کی بیماری انکے اہل خانہ کے لیے پریشانی جبکہ جیل انتظامیہ کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ کوٹ لکھ پت جیل کے ایک اعلٰی افسر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جیل میں نواز شریف کو طبی سہولیات تو دی جا رہی ہیں۔ لیکن جس معیار کی انہیں سہولیات چاہیئں وہ میسر نہیں۔
“بھائی میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کو جیل سے اسپتال منتقل کیا جائے، تاکہ ان کا مکمل علاج ہو سکے”۔
مریم نواز اپنے والد کی صحت کے سلسلےمیں خاصی پریشان ہیں، جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر بھی کرتی رہتی ہیں۔ مریم نواز کے مطابق جیل انتظامیہ نواز شریف کی بیماری کے متعلق سنجیدہ نہیں۔ مریم نواز اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھتی ہیں کہ اُنہیں اپنے والد کی صحت سے متعلق صحیح آگاہ نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی رپورٹس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت کو جانچنے کے لیے ایک چھ رکنی بورڈ تشکیل دیا تھا، جس میں دو ڈاکٹر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور، دو ڈاکٹر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی جبکہ دو بریگیڈئیر ڈاکٹر آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے لیے گئے ہیں۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے تشکیل کردہ بورڈ کے ہمراہ نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان نے گزشتہ روز کوٹ لکھپت جیل میں ان کا معائنہ کیا۔ ڈاکٹر عدنان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی میڈیکل بورڈ کے دو ارکان آئے ہی نہیں جس سے اُن کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عدنان کے مطابق، نواز شریف کو انجائنا ہو رہا ہے۔ اسپتال میں داخل کر کے اُن کی انجیوگرافی اور دیگر ٹیسٹ بہت ضروری ہیں۔
بقول ڈاکٹر عدنان، “اُن کا دل ٹھیک طور پر کام نہیں کر رہا۔ گذشتہ چند دِنوں سے انہیں کبھی کبھار ’انجائنا‘ کی شکایت بھی ہو رہی ہے۔ نواز شریف بلڈ پریشر کے مریض بھی ہیں اور ذیابیطس کے بھی، اِن بیماریوں کے ساتھ انہیں کڈنی کرونک ڈی سیز اسٹیج تھری بھی ہے”۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی صحت کے سلسلے میں حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ حکومت نواز شریف کے علاج میں جان بوجھ کر تاخیر کر رہی ہے، جس کے باعث اُن کی صحت بگڑتی جا رہی ہے۔
خرم دستگیر کے الفاظ میں، “اُن کے علاج میں جو ظالمانہ تاخیر کی جا رہی ہے وہ بہت قابل مذمت ہے۔ اُن کے خاندان کو بھی نواز شریف کی صیح ٹیسٹ رپورٹس نہیں دی جا رہیں۔ جس کے باعث، وہ بھی درست فیصلہ نہیں کر پا رہے اور خوامخواہ افواہیں پھیل رہی ہیں”۔
پنجاب حکومت کے مطابق، وہ نواز شریف کے علاج میں انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل نے نواز شریف کی صحت سے متعلق اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ جیل کا ڈاکٹر میاں صاحب کو روز چیک کرتا ہے جبکہ نواز شریف کا ذاتی معالج بھی انہیں دیکھ چکا ہے۔
ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر شہباز گِل نے کہا کہ مریم نواز ٹوئٹر پر نواز شریف کی بیماری سے متعلق غلط خبریں پھیلا کر بلیک میل کرنا چاہتی ہیں تاکہ سیاسی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
اُنھوں نے کہا کہ “پی آئی سی کے ڈاکٹروں نے جیل میں نواز شریف کا معائنہ کیا اور کچھ ٹیسٹ تجویز کیے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق نواز شریف کو کم پروٹین اور بغیر نمک والی خوراک دی جا رہی ہے”۔
نواز شریف کی جانب سے کندھے اور بازو میں تکلیف کی شکایت پر رواں ماہ علامہ اقبال میڈیکل کالج جناح اسپتال لاہور کے ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ بورڈ نے نواز شریف کے معائنے کے بعد اِنہیں اسپتال منتقل کرنے کی تجویز دی تھی
بورڈ کی سفارشات کے بعد حکومت پنجاب نے نواز شریف کی صحت سے متعلق ایک لارجر بورڈ تشکیل دیا تھا۔ نواز شریف کی صحت اور علاج بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست زیر سماعت ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نواز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جائے اور ان کا علاج اسپتال میں کیا جائے۔ جس پر عدالت نے چھ فروری کو نواز شریف کی صحت سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔
احتساب عدالت کی جانب سے العزیزیہ ملز کیس ریفرنس میں سنائی گئی سزا کے مطابق، سابق وزیر اعظم کوٹ لکھپت جیل لاہور میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔