|
تقریباً 50 ملکوں نے بدھ کی رات ایک بیان جاری کیا جس میں اسرائیل پر ایران کے میزائل اور ڈرون حملوں کی مذمت اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی دور کرنے کی کوششوں پر سفارتی تعاون کا عہد کرتے ہوئے خطے کے فریقوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کے لیے کام کریں۔
یہ بیان، اسرائیل،امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا،کینیڈا، فرانس،جرمنی، جاپان، یونان، اٹلی، اسپین،سویڈن، ہنگری، پولینڈ،نیدر لینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا، یوکرین، آسٹریا، بیلجیم، ارجنٹائن اور قبرص، سمیت پچاس ملکوں کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندوں کی جانب سے آیا ہے۔
بیان میں کیا کہا گیا؟
بیان میں کہا گیا ہے کہ “ہم نوٹ کرتے ہیں کہ ایران کا اشتعال انگیز حملہ ایران اور اس کے عسکریت پسند شراکت داروں کے خطرناک اور غیر مستحکم کرنے والے اقدامات کا ایک تازہ ترین نمونہ ہے، جس سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہوتا ہے۔”
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کو کہا کہ، اسرائیل اپنے طور پر فیصلہ کرے گا کہ ایران کے اختتام ہفتہ کیے گئے حملے کا جواب کیسے دیا جائے، اس کے باوجود کہ مغربی ممالک نے پورے مشرق وسطیٰ میں کسی جنگ کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے تحمل سے کام لینے کا کہاہے۔
جنگ کا پھیلاؤ روکنے کی عالمی کوششیں
امریکہ، یورپی یونین اور صنعتی ممالک کے G7 گروپ، سب نے ایران پر سخت تر پابندیوں کو زیر غور لانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد اسرائیل کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ تہران کے خلاف جوابی کارروائی کے اپنے ارادے کو لگام دے۔
نیتن یاہو نے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور اپنی جرمن ہم منصب اینالینا بائربوک سے ملاقات کی۔ دونوں عہدیدار، غزہ میں حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے پیش نظر، جس کو اب ساتواں مہینہ شروع ہو گیا ہے، اسرائیل اور ایران کے تصادم کو مزید بڑھنے سے روکنے کی مغربی کوشش کے سلسلے میں اسرائیل پہنچے تھے۔
نیتن یاہو کی وضاحت
نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ انہوں نے کیمرون اور اینالینا بائربوک کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے، جب کہ ان سے کہا، “میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں، ہم اپنے فیصلے خود کریں گے، اور اسرائیل کی ریاست اپنے دفاع کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گی۔”
اس سے قبل، کیمرون نے کہا تھا کہ اب یہ ظاہر ہے کہ اسرائیل نے ،خود کو نشانہ بنانے والے ان سینکڑوں میزائلوں اور ڈرونز کا بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا ہے جن میں سے تقریباً سبھی اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے مار گرائے تھے۔
تہران نے ہفتے کے روز کا یہ حملہ یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر کیے گئے مبینہ طور پر اسرائیلی فضائی حملے کے جواب میں کیا تھا۔
بائربوک نے کہا کہ،” کشیدگی سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا، نہ اسرائیل کی سلامتی کو، نہ درجنوں یرغمالوں کو، جو اب بھی حماس کے پاس ہیں، نہ غزہ کی مصیبت زدہ آبادی کو، نہ ایران کے ان بہت سے لوگوں کو جو خود حکومت کے تحت مصائب کا شکار ہیں، اور نہ ہی خطے کے دوسرے ملکوں کو جو صرف امن سے رہنا چاہتے ہیں۔”
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے اپنی ساکھ بچانے کے لیے جوابی کارروائی کرنی چاہیے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے تہران کے مضافات میں سالانہ فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کی جوابی کارروائی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایران اس کے بعد “بڑے پیمانے پر اور سخت جواب”دے گا۔
حماس کے جنگجووں نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد سے، غزہ میں جس جنگ کو شروع کیا ہے، لبنان، شام، یمن اور عراق میں قائم اسرائیل اور ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔
حماس کے اسرائیل پر حملے میں 1200 لوگ ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا جب کہ اسرائیل کی غزہ میں جوابی کارروائی میں غزہ کی صحت کے حکام کے مطابق اب تک لگ بھگ 34000 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں حماس کے ہزاروں جنگجو شامل ہیں۔
سینئر امریکی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملے میں، جو ایرانی سرزمین سے کیا گیا پہلا حملہ تھا۔ اس میں 110 سے زیادہ بیلسٹک میزائل، 30 کروز میزائل اور 150 سے زیادہ یک طرفہ، دھماکہ خیز فضائی ڈرون شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس حملے میں عراق، شام اور یمن میں ایرانی پراکسی فورسز نے بھی حصہ لیا تھا۔
ایران نے اتوار کو ہونے والے فضائی حملے کو دمشق میں اپنے قونصل خانے پر حملے کا بدلہ لینے کے لیے کیا جانے والا واحد واقعہ قرار دیا ہے۔
اسرائیل کی جنگی کابینہ نے حالیہ دنوں میں اسرائیل کے ردعمل کے طریقوں پر بحث کے لیے بار بار اجلاس کیے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم