نیپالی سائنس دان ٹائیفائڈ بخار کے آغاز اور اس سے متاثرہ علاقوں کا سراغ لگانے کے لیے انسانی جینز کی تخلیق سے متعلق ٹیکنالوجی اور 'گوگل ارتھ' کا استعمال کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک مخصوص جرثومے سے جنم لینے والا ٹائیفائڈ بخار مریض کے فضلے سے متاثرہ خوراک یا پانی کے ذریعے وبائی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جرثومے کی بدلتی شکل اور بیماری سے متاثرہ افراد کی موجودگی کے درست مقام کی نشاندہی میں طبی عملے کو درپیش مشکلات کے باعث اس بیماری کی جڑ اور اس سے ممکنہ طور پر متاثرہونے والی آبادیوں کا تعین کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
نیپال میں طبی عملے کو مریضوں کی درست نشاندہی اور ٹائیفائڈ سے متاثرہ علاقوں اور اس کا نشانہ بننے والی ممکنہ آبادیوں کو ریکارڈ کرنے میں اس لیے بھی زیادہ دشواری پیش آرہی تھی کہ نیپال جیسے پسماندہ ملک میں بیشتر گھروں کے مکمل پتے دستیاب نہیں ہوتے۔
اس مشکل کا حل مقامی سائنس دانوں نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے نکالا ہے۔ طبی سائنس کےجریدے ' اوپن بیالوجی' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کا طبی عملہ ٹائیفائیڈ کے مریضوں کا سراغ لگانے کے لیے 'گلوبل پوزیشننگ سسٹم' یعنی 'جی پی ایس' کی مدد لے رہا ہے جس سے حاصل ہونے والی معلومات کو بعد ازاں 'گوگل ارتھ' پر پوسٹ کیا جارہا ہے۔
مذکورہ معلومات کی بنیاد پر محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آبادیوں کو پانی فراہم کرنے والے نلکوں کے نزدیک اور ڈھلوانی علاقوں پر رہنے والے افراد کے ٹائیفائڈ کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی کی وتینام کی شاخ سے منسلک سائنس دان اسٹیون بیکر کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کےجرثوموں کی پیدائش اور پھیلاؤ کا سراغ لگانا انتہائی مشکل کام تھا جسے ٹیکنالوجی کے اس نئے استعمال نے آسان بنادیا ہے۔