پاکستان کے شہر لاہور کی ایک یونیورسٹی میں انتظامیہ نے زیر تعلیم طالب علموں کے لیے ڈریس کوڈ جاری کیا ہے جس کے تحت طالبات کے لیے دوپٹہ یا سکارف اوڑھنے اور جینز پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن نے نئے ڈریس کوڈ سے متعلق ایک نوٹیفیکشن جاری کیا ہے۔
طالبات کو یہ بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ چست پاجامے، کیپری پینٹ، بغیر بازو شرٹس اور گہرے گلے والی شرٹس زیب تن کرنے سے گریز کریں۔
طلبہ کے لئے بھی نیا ڈریس کوڈ جاری کیا گیا ہے جس میں انہیں بھی جینز کی بجائے ڈریس پینٹ پہننے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ جوگرز پہننے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
طلبا و طالبات کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ جمعہ کے روز لازماً شلوار قمیض زیبِ تن کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے پر عمل درآمد کا آغاز 11 مارچ سے ہو گا۔ طلبا و طالبات کو خبردار کیا گیا ہے کہ ڈریس کوڈ پر عمل نہ کرنے والوں کو پانچ ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔
شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شعیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اساتذہ کو انتظامیہ کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔
ہراسگی کے واقعات میں اضافہ
یو ای ٹی کے ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ یو ای ٹی میں واحد نان انجنیئرنگ شعبہ ہے یہاں میرٹ کی بجائے سیلف فنانس کے ذریعے بھی داخلہ مل جاتا ہے جس کے باعث شہر کے پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات بھی یہاں داخلہ لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈریس کوڈ یونیورسٹی کے دیگر شعبوں میں پہلے ہی نافذ العمل ہے۔ آئی بی ایم کے طلبا و طالبات یونیورسٹی کے روایتی ماحول سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہے تھے شعبے میں خواتین کو ہراساں کرنے کے چند واقعات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
فیصلے کو کچھ طلبا و طالبات نے سراہا ہے جبکہ کچھ نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
فیس بک پر ایک صارف نے لکھا ہے کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جب کہ ایک صارف کے نزدیک ہمارے اداروں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی سوچ لباس سے شروع ہو کر لباس پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔
ایک صارف نے لکھا ہے کہ اس فیصلے کے بعد آئی بی ایم کی حاضری 20 فیصد رہ جائے گی۔ فرزام عامر نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ معاشرے اس وقت زوال پذیر ہوتے ہیں جب ریاست لوگوں کی چوائس پر قدغنیں لگاتی ہے۔