پاکستان میں ان دنوں جنسی زیادتی کے مرتکب ملزمان کو سرِ عام پھانسی دینے کی بحث زوروں پر ہے۔ حکومت اور سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد زیادتی کے ملزمان کو سخت سزا دینے کے حامی نظر آتے ہیں۔ وہیں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو سخت سزاؤں کو مسئلے کا حل نہیں سمجھتے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پیر کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ایسے ملزمان کو چوک پر لٹکانا چاہیے۔ کیوںکہ اُن کے خیال میں ایسے واقعات سے خواتین اور بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ سرِ عام پھانسی کا عمل بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو گا کیوں کہ ایسا کرنے سے یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو تجارتی فوائد کے لیے دیے گئے 'جی ایس پی' اسٹیٹس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دوسری جانب حکومت میں شامل بعض وزرا، کئی نامور وکلا، قانون دان اور انسانی حقوق کے کارکن کے خیال میں زیادتی کے جرائم کا حل سرِ عام پھانسی نہیں بلکہ ان کے خیال میں اس سے قبل یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ملک میں ایسے مقدمات میں سزائیں ملنے کی شرح پانچ فی صد سے بھی کم ہے۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم کر کے دہشت گردی ختم نہیں کی جا سکی۔ اسی طرح سرِ عام پھانسی سے زیادتی جیسے جرائم کو معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں تفتیش کے نظام میں موجود خامیاں، شہادتیں اور گواہی جمع کرنے کے نظام میں نقائص کے ساتھ ٹرائل کے مرحلے پر بعض قانونی پیچیدگیاں ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کو سزا نہیں مل پاتی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے انٹرویو کے دوران جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے ایسے مجرموں کو جنسی قوت سے محروم کرنے کی بھی تجویز دی تھی۔ ان کے بقول یہ عمل کئی ملکوں میں لاگو ہے اس لیے پاکستان میں اس کے لیے نئے قوانین متعارف کرانا ہوں گے تاکہ جنسی زیادتی کے واقعات اور اِن جرائم کے بار بار ارتکاب سے لوگوں کو روکا جا سکے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی وزیرِ اعظم کے اس معاملے پر بیان کو جذباتی قرار دیتی ہیں۔
ان کے بقول نظامِ انصاف میں بہتری لائے بغیر سزائیں سخت کرنے سے جرائم کا ارتکاب نہیں روکا جا سکتا۔ اس طرح کے بیانات سے عوامی غصے کو تو کم کیا جا سکتا ہے مگر مسئلے کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ نورانی نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن سزائے موت کی مخالفت اس لیے کرتا ہے کیوں کہ سزائے موت بذاتِ خود انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ چند ممالک کے سوا بہت سے ممالک میں سزائے موت کا تصور ختم ہو چکا ہے جبکہ وہاں جرائم کی شرح بھی بے حد کم ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں نظامِ انصاف میں بے پناہ سقم موجود ہیں وہاں تو ویسے ہی سزائے موت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بعض ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں پھانسی کے بعد معلوم ہوا کہ سزا پانے والا بے گناہ تھا۔
عظمیٰ نورانی کے خیال میں مجرموں کو سزائیں ضرور دی جائیں مگر کڑی سزائیں دینے کے عمل سے گریز ضروری ہے کیوں کہ اس سے کوئی بہتری نہیں آئی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون کی پاسداری نہ کرنے اور جرائم کا ارتکاب کرنے پر سزائیں سخت بنانے کے بجائے قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے۔
مجرموں کی سزا میں قانونی نقائص کہاں ہیں؟
قانونی ماہرین کے مطابق تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375 میں 'ریپ' کو واضح کیا گیا ہے۔ دفعہ 376 میں اس کی سزا سزائے موت یا کم سے کم دس سال سے لے کر 25 سال تک مقرر ہے اور مجرم کو جرمانہ اس کے علاوہ ادا کرنا ہو گا۔
گینگ ریپ کی صورت میں بھی ہر نامزد شخص کی سزا، سزائے موت یا عمر قید رکھی گئی ہے جب کہ دفعہ 377 میں ترمیم کر کے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے لیے بھی سزا عمر قید اور کم سے کم پانچ لاکھ روپے جرمانے یا دونوں سزائیں رکھی گئی ہیں۔
لیکن ماہرِ قانون اور صوبۂ سندھ کے سابق پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی سے متعلق تمام قوانین موجود ہیں، مسئلہ قوانین کی عدم موجودگی کا نہیں بلکہ ان کے اطلاق کا ہے۔
ان کے بقول سزاؤں پر عمل درآمد اسی صورت ممکن ہے جب مقدمہ چلانے کے لیے مضبوط استغاثہ ہو جس کے پاس اپنا کیس ثابت کرنے کے لیے ناقابلِ تردید شواہد بھی موجود ہوں۔
شہادت اعوان ایڈووکیٹ کہتے ہیں تحقیقات کے دوران فرانزک شواہد اور واقعاتی شواہد ٹھیک طریقے سے جمع نہ ہونے کے علاوہ گواہوں کی عدم تعاون کی وجہ سے ملزمان کو سزائیں نہیں مل پاتیں۔
انہوں نے بتایا کہ ریپ کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ بہت اہمیت کے حامل ہیں، ان کے نمونوں کی ٹھیک طریقے سے حفاظت اور جانچ کے لیے اب بھی ملک میں ماہرین کی کمی ہے۔
شہادت اعوان کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعے کے کئی کئی دن بعد مقدمے کا اندراج اور متاثرہ شخص کی اسپتال سے میڈیکو لیگل رپورٹ کے اجرا میں غیر معمولی تاخیر سے بھی کیس متاثر ہوتا ہے۔ بعض کیسز میں وکلا اور عدالت کی جانب سے بلاوجہ تاخیر بھی ملزمان کی سزاؤں سے بچ نکلنے کی وجہ بنتے ہیں۔
ان کے بقول جب تک ان بنیادی چیزوں کا خیال نہیں رکھا جائے گا اس وقت تک مجرم کو سزا دلانا انتہائی مشکل ہے۔
قومی اسمبلی میں سرِ عام پھانسی کی قرارداد
پاکستان کی قومی اسمبلی نے رواں برس فروری میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے افراد کو سرِ عام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی تھی۔
وزیرِ پارلیمانی امور علی محمد خان نے اس قرار داد کو پیش کیا تھا جن کا کہنا تھا کہ زیادتی کے مجرموں کے لیے وزیرِ اعظم سزائے موت چاہتے ہیں اور حکومت اس حوالے سے قانون بنانا چاہتی ہے۔
تاہم اس قرارداد کی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مخالفت کی گئی تھی لیکن پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی میں قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیرِ برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی جماعت کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔
دونوں رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ معاشرے متوازن طریقے سے چلتے ہیں۔ اس طرح کے قوانین تشدد پسند معاشروں میں بنتے ہیں اور یہ قرارداد انتہا پسند سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔
ان کے خیال میں جرائم کا جواب بربریت نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی انتہاپسندی کا ایک اور اظہار ہے۔ ایسی سزاؤں سے معاشرے بے حس ہو جاتے ہیں جب کہ مہذب معاشرے مجرموں کو سزا سے پہلے جرم روکنے کی تدابیر کرتے ہیں۔