پاکستانی خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) کے نامزد سربراہ، لیفٹننٹ جنرل نوید مختار سات دسمبر تک کراچی کے کور کمانڈر تھے۔ انہوں نے ڈی جی رینجرز بلال اکبر کے ساتھ مل کر کراچی میں ہونے والے ’ٹارگیٹڈ آپریشن‘ کی نگرانی کی۔
فوج کی اعلیٰ قیادت میں تبدیلی کے بعد، اہم عہدوں پر بڑے پیمانے پر تقرریاں اور تبادلے ہوئے ہیں، اور لیفٹننٹ جنرل نوید مختار کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی اور میجر جنرل بلال اکبر کی چیف آف جنرل اسٹاف تعیناتی عمل میں آئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان کوآرڈینیشن کارآمد رہی اور اس امید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں بھی ملک کی داخلی سیکورٹی اولین ترجیح رہے گی۔
لیفٹننٹ جنرل نوید مختار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1983ء میں آرمرڈ کور میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ، نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے گریجویٹ ہیں اور انہوں نے امریکہ سے وار کورس بھی کر رکھا ہے۔ اکتوبر 2014ء میں کور کمانڈر کراچی کا چارج سنبھالنے سے قبل، وہ آئی ایس آئی کے انسداد دہشت گردی ونگ کے سربراہ تھے۔
انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس میں خاصی مہارت کی بنا پر ہی، اُنھیں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈر کراچی تعینات کیا تھا۔ لیفٹننٹ جنرل نوید مختار قبائلی علاقوں میں بریگیڈ کی قیادت کا تجربہ رکھتے ہیں اور ڈی جی ملٹری آپریشنز بھی رہ چکے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار، کرنل (ریٹائرڈ) فضل عباس، لیفٹننٹ جنرل نوید مختار کے بارے میں کہتے ہیں کہ "میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک کامیاب ڈی جی آئی ایس آئی ثابت ہوں گے، کیونکہ جب وہ کور کمانڈر کراچی تھے، کراچی میں دہشت گردی کیے خلاف بہت بڑا آپریشن چل رہا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی دن نہیں جاتا تھا جب کراچی میں بم کے دھماکے یا دہشت گردی کے واقعات نہ ہو رہے ہوں۔ لیکن، فوج نے اور رینجرز نے انتہائی خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ اس پر قابو پایا۔ اس کے پیچھے جو اصل طاقت تھی، وہ کور کمانڈر تھے۔ لیکن، آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ کبھی ان کا نام سامنے نہیں آیا۔ ایپکس کمیٹی میں وہ ہوتے تھے، کور کمانڈرز میٹنگ میں وہ ہوتے تھے، ہر جگہ وہ بیک گراؤنڈ میں رہے۔ وہ کراچی سے بڑا تجربہ لے کر جا رہے ہیں۔ ان کو پورے سندھ کے حالات کا پتہ ہے، جو بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی ان کے بڑے کام آئے گا۔"
آئی ایس آئی کے ادارے کا دائرہٴ کار بلوچستان سے لے کر وزیرستان اور کراچی تک پھیلا ہوا ہے، جہاں موجود مسلح گروہوں کے تانے بانے پاکستان کی عسکری اور سول قیادت اکثر اوقات بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے جوڑتی رہی ہے۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر، طاہر حسن خان، نوید مختار کی اس اہم عہدے پر تعیناتی کے بارے میں کہتے ہیں، "کور کمانڈر کی حیثیت سے وہ کراچی آپریشن کا حصہ تھے اور انہوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اور کافی حد تک ان کے اقدامات کو سراہا بھی گیا۔ ڈی جی رینجرز اور وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ مل کر جس طرح انہوں نے معاملات کو سنبھالا، اس میں تو وہ کافی کامیاب رہے، اور انہیں ان باتوں پہ سراہا بھی گیا۔ لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کی حیثیت سے چارج سنبھالنے کے بعد وہ کیا پالیسی اپنائیں گے، حکومت کی کیا پالیسی ہوگی اور کس طریقے سے وہ عمل کریں گے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ کیونکہ جب بھارت سے تعلقات کی بات آتی ہے، تو ان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ یا حکومت اور اداروں کے درمیان جو فاصلہ ہے، اس کو ختم کرنے کے لئے ان کا کردار بہت اہم ہوگا‘‘۔
بقول اُن کے، ’’وہ فوج کے اچھے افسران میں شمار ہوتے ہیں۔"
کور کمانڈر کراچی کی حیثیت سے، لیفٹننٹ جنرل نوید مختار، صوبائی ایپکس کمیٹی کے فیصلہ ساز رکن رہے ہیں۔
یاد رہے کہ تقریباً ایک سال قبل اسی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس کے بعد رینجرز کی جانب سے اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کراچی میں سالانہ 230 ارب روپے سے زائد رقم غیر قانونی طریقوں سے وصول کی جاتی ہے، اور اس کا ایک بڑا حصہ سیاسی شخصیات کو پہنچایا جاتا ہے۔ اس دعوے کے بعد یہ موضوع کافی عرصے تک زیر بحث بھی رہا۔ تاہم۔ اب تک اس معاملے سے متعلق کئی گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں اور اس کی تحقیقات کا دائرہ بھی وسیع تر ہو چکا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار، شہزاد شاہ جیلانی نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں جو تعیناتیاں ہوئیں، وہ، بقول اُن کے،’’ بڑے تکنیکی انداز سے کی گئیں‘‘۔