نیوزی لینڈ کے رائل انکوائری کمیشن کی جانب سے بدھ کو جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ملک بھر میں سرکاری اور مذہبی اداروں کے کیئر سینٹرز میں رہنے والے دو لاکھ 56 ہزار بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق رپورٹ میں یہ اعداد و شمار 1950 سے 2019 کے درمیان ہونے والے واقعات کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔
یہ بچے اور نوجوان رہائشی سہولیات نہ ہونے کے باعث بعض سرکاری اور مذہبی اداروں کے کیئر سینٹرز میں مقیم تھے۔
یہ تعداد اس عرصے میں کئیر سینٹرز میں مقیم چھ لاکھ 55 ہزار افراد کی تعداد کا 40 فی صد ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیئر سینٹرز میں رہنے والوں کی تعداد حکومت کے اندازوں سے چھ گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ میں ریسرچ کی کمی کے باعث تشدد اور زیادتی کے کیسز نظر انداز کردیے جاتے ہیں تاہم اگر انہیں بھی شمار کیا جائے تو تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بننے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
رائل کمیشن کے صدر کورل شا نے 'رائٹرز' کو جاری ایک بیان میں کہا کہ محتاط اندازوں کے باوجود سرکاری سینٹرز میں تشدد اور بدسلوکی کے کیسزکی تعداد پچھلے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے 2018 میں رائل کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کے تاریک باب کو سامنے لانا ضروری ہے۔
انکوائری کے اعلان کے بعد گرجا گھروں اور دیگر مذاہب کے تحت چلنے والے اداروں کو بھی تحقیقات میں شامل کر کے تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سرکاری اور مذہبی بنیادوں پر قائم کیئر سینٹرز میں بدسلوکی کا شکار بچوں اور نوجوانوں کی تعداد 21 سے 42 فی صد ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ ایک دیرینہ اور سنگین معاشرتی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
نیوزی لینڈ پبلک سروس کے وزیر کرس ہپکنز کا کہنا ہے کہ سرکاری کیئر سینٹرز میں بچوں کو محفوظ ہونا چاہیے لیکن جیسا کہ تحقیقات سے سامنے آیا ہے صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
عبوری رپورٹ پرائیوٹ اور سرکاری سماعتوں کے بعد سامنے آئی ہے جس کے دوران زیادتی کا شکار افراد نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی تفصیلات بیان کیں اور ماہرین، وکلا اور سرکاری افسروں نے اپنے تجربات بیان کیے۔
کیتھ ویفن کو 10 سال کی عمر میں سرکاری کیئر سینٹر بھیجا گیا تھا جہاں ان سے زیادتی کی گئی۔
کیتھ نے مقامی اخبار 'نیوزی لینڈ ہیرالڈ' کو بتایا کہ رپورٹ میں اس دور کے اعداد و شمار بھی جمع کیے گئے ہیں جب ملک کی آبادی تیس لاکھ سے بھی کم تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہو گی۔