'یہ شخص کسی درندے سے بھی بڑھ کر ہے، کیوں کہ کوئی درندہ بھی جانوروں کے چھوٹے بچوں کی معصومیت کو تباہ نہیں کرتا، بچے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں اور یہ شخص معصوم پھولوں کو اپنے پاؤں تلے کچلتا رہا۔'
یہ الفاظ ہیں راول پنڈی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جہانگیر گوندل کے جنہوں نے انٹرنیشنل ڈارک ویب کے مبینہ سرغنہ سہیل ایاز کو معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی، اغوا، پورن وڈیو بنانے کا جرم ثابت ہونے کے بعد تین بار پھانسی اور تین بار عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
شریک ملزم خرم عرف کالا کو صرف اغوا کے جرم میں 7 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
ملزم کو متاثرہ خاندان کو پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔
مجرم سہیل ایاز کا جرم ناقابلِ معافی ہے، فیصلہ
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں بچوں کے ساتھ جنسی کو انتہائی گھناؤنا جرم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کیس کا مجرم سہیل ایاز انتہائی اعلی تعلیم یافتہ اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے جس نے اپنی تعلیم کو ملک کے لیے مثبت انداز میں استعمال کرنے کی بجائے اس تعلیم کو ہی غلط استعمال کیا۔
عدالت نےکہا کہ مجرم برطانیہ میں بھی ایسے ہی جرم میں سزا کے بعد پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا، یہ عادی مجرم ہے۔ پھول جیسے بچوں کے ساتھ جنسی درندگی ان کا تابناک مستقبل تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے جو قابل معافی نہیں اور اس میں کسی بھی قسم کی رعایت بھی نہیں دی جا سکتی۔
عدالت نے کہا کہ جب تک مجرم سہیل ایاز کی جان نہیں نکل جاتی، اس وقت تک مجرم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا رکھا جائے۔ ایسے عادی مجرمان کو کم سن بچوں کی زندگیاں تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔
عدالت نے کہا کہ ایسے جرائم کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے۔
کیس کا پس منظر
نومبر 2019 میں راولپنڈی کی پولیس نے تھانہ روات کے علاقے میں ایک کارروائی کے دوران بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز نشر کرنے والے بین الاقوامی ڈارک ویب کے سرغنہ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
راولپنڈی پولیس کے مطابق ملزم سہیل ایاز کو تھانہ روات کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں ایک محنت کش نے درخواست دی تھی کہ اس کے قہوہ فروش بیٹے کو سہیل نامی شخص نے اغوا کیا اور چار روز تک زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔
شہری کی درخواست پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تو اس سلسلے میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے، جس کے مطابق ملزم مکروہ کام کا عادی ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم نے دورانِ تفتیش تسلیم کیا کہ وہ 2009 میں برطانیہ سے سزا کاٹنے کے بعد ڈی پورٹ ہو کر پاکستان آیا تھا اور روات کے علاقے میں رہائش پذیر تھا۔
اس وقت کے سٹی پولیس افسر فیصل رانا کا کہنا تھا کہ ایک بچے کے ساتھ زیادتی کے الزام میں پولیس نے جب سہیل ایاز کے گھر پر چھاپہ مارا تو تلاشی کے دوران اس کا موبائل، لیپ ٹاپ اور کیمروں سے بچوں سے زیادتی کی ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔
ملزم نے تیس بچوں کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کیا، جب کہ درحقیقت یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ پولیس اس سلسلے میں بچوں کے والدین سے رابطہ کر رہی ہے لیکن اگر سماجی دباؤ کے تحت وہ مدعی نہیں بھی بنتے تو پولیس اس معاملے میں خود مدعی بن کر اس شخص کو سخت سزا دلوائے گی۔
اس کیس کے دونوں مجرمان کے خلاف تینوں مقدمات تھانہ روات میں درج کئے گئے تھے، ان تین مختلف کیسز میں تین بچوں کے والدین نے درخواست دی کہ ان کے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
سہیل ایاز محکمہ منصوبہ بندی کا کنسلٹنٹ تھا
مجرم سہیل ایاز کے حوالے سے پولیس نے جو تحقیقات کیں ان میں ابتدائی تحقیقات میں سامنے آیا کہ وہ خیبر پختونخوا کے سول سیکرٹریٹ محکمہ منصوبہ بندی کو کنسلٹنسی فراہم کر رہا تھا اور حکومت سے ماہانہ تین لاکھ روپے تنخواہ لیتا تھا۔
سہیل ایاز برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کر چکا ہے اور اسی ادارے میں ملازمت کے دوران اس پر بچے کے ساتھ زیادتی کا الزام لگا جس پر اُسے سزا بھی ہوئی۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم سہیل اٹلی میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں عدالتی مقدمہ بھگت چکا ہے اور اسے اٹلی سے بھی ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم بنیادی طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے اور وہ انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔ اس کے جرائم کی وجہ سے اس کی بیوی نو سال قبل اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی جب کہ اس کے والدین اور بہن بھائیوں نے بھی اس سے لاتعلقی اختیار کر لی تھی۔