رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں حریت کانفرنس کا مرکزی دفتر سیل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنےوالی کشمیری جماعتوں کے اتحاد ’حریت کانفرنس‘ کے سرینگر میں صدر دفتر کو سیل کر دیا ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ این آئی اے کی ایک ٹیم اتوار کی صبح پولیس اہل کاروں کی ایک بھاری نفری کے ساتھ سرینگر کے راج باغ کے علاقے میں پہنچی جہاں اس نے حریت کانفرنس کے دفتر کو پہلے سیل کیا اور پھر اس کے صدر دروازے پر پراپرٹی کو ضبط کرنے کا نوٹس چسپاں کر دیا ۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ پراپرٹی کو ضبط کرنے کی یہ کارروائی نئی دہلی کی ایک خصوصی عدالت کے حکم نامے کے تحت کی گئی ہے جو 27 جنوری کو جاری کیا گیا تھا۔

این آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج شیلندر ملک نے حریت کانفرنس کے دفتر کو ضبط کرنے کا حکم صادر کرتے کہا ہے کہ علیحدگی پسند رہنما اور کشمیر فرنٹ نامی تنظیم کے سربراہ محمد نعیم خان اس جائیداد کے شریک مالک ہیں جنہوں نے ملک اور بیرونِ ممالک سے غیر قانونی حوالہ چینلز کے ذریعے بھاری رقوم جمع کیں اور پھر اس سے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کی معاونت کی۔

این آئی اے نے خصوصی عدالت کو بتایا تھا کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ نعیم خان نے اس عمارت کو جس میں حریت کانفرنس کا دفتر قائم ہے، خریدنے کے لیے غیر قانونی حوالہ چینلز کی وساطت سے حاصل کی گئی رقم استعمال کی تھی۔

این آئی اے نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس پراپرٹی کو دہشت گردی کی کارروائیوں اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

نعیم خان اُن ایک درجن سے زائد کشمیری علیحدگی پسند رہنماؤں میں شامل ہیں جنہیں این آئی اے نے 2017 کے وسط میں مبینہ ٹیرر فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ یہ سب ہی ملزمان گزشتہ ساڑھے پانچ سال سے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

مبینہ ٹیرر فنڈنگ کے الزامات میں 2017 میں این آئی اے نے جو مقدمہ درج کیا تھا، اُس میں نعیم خان سمیت تقریباََ ایک درجن ملزمان کے خلاف جو فردِ جرم عائد کی گئی تھی اُس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے دنیا بھر میں ایک ایسا جامع ڈھانچہ قائم کیا تھا جس کے ذریعے جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھنے اور تحریکِ آزادی کے نام پر بھاری رقوم جمع کی گئیں۔

ملزمان میں یاسین ملک بھی شامل ہیں جو قوم پرست جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین ہیں۔ انہیں گزشتہ برس مئی میں این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے ٹیرر فنڈنگ، حکومت کے خلاف جنگ اور دہشت گرد کارروائیوں کے الزامات میں مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مبینہ ٹیرر فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے اس کیس میں جن دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں پر فردِ جرم عائد ہوئی، اُن میں فاروق احمد ڈار عرف بٹہ کراٹے، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم، حزب المجاہدین کے کمانڈر محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین، الطاف احمد شاہ، آفتاب احمد شاہ عرف شاہد الاسلام، محمد اکبر کھانڈے، راجا معراج الدین کلوال، بشیر احمد بٹ عرف پیر سیف اللہ، سابق رکنِ اسمبلی انجینئر عبد الرشید شیخ، تاجر ظہور احمد وٹالی اور نول کشور کپور شامل ہیں۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ حریت کانفرنس نے دفتر کو بھارت مخالف مظاہروں کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دینے، سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنے والے افراد کی فنڈنگ، بے روزگار نوجوانوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے اور دہشت گردوں کی معاونت کے لیے استعمال کیا تاکہ ریاست میں بد امنی پھیلے۔

حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں قائم کیا گیا تھا البتہ 10 برس بعد قیادت میں اختلافات پر حریت کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

کشمیر کے مسئلے پر سخت گیر مؤقف کے حامل اتحاد کے دھڑے کی قیادت سرکردہ آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے سنبھال لی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں میرواعظ محمد عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہوئیں۔

اتوار کو این آئی اے نے جس تین منزلہ عمارت کو سیل کیا ہے، اُسے حریت کانفرنس (میرواعظ) اپنے صدر دفاتر کے طور پر استعمال کررہی تھی۔

اگست 2019 میں جب بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو منسوخ کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقے بنایا تھا، یہ دفتر بند پڑا تھا۔

حریت کانفرنس نے اس کی وجہ اس پر حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیاں اور قیادت کو پابندِ سلاسل کرنا بتایا تھا۔

چند ماہ قبل حکومت کے حامی سیاسی کارکنوں کی ایک جمعیت نے عسکریت پسندوں کی طرف سے اقلیتی برہمن ہندوؤں جو کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں، کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حریت کانفرنس کے صدر دفاتر کا بورڈ اتار دیا تھا۔

حریت کانفرنس (میر واعظ ) نے اس کے دفتر کو ضبط کرنے کی کارروائی پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حریت دفتر کے در و دیوار پر بار بار یلغار اور حکومت کے زیر کنٹرول میڈیا کے ذریعے اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر سے جموں و کشمیر کے عوام کے جذبے کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔

سرینگر سے جاری ایک بیان میں حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ یک طرفہ عدالتی حکم کے تحت دفتر کو سیل کرنے کی کارروائی اور میڈیا میں کوریج کے لیے نوٹس چسپاں کرنے کے عمل سے حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے جیسے اس نے کوئی بڑی فتح حاصل کر لی ہے۔

بیان کے مطابق مصنوعی اقدامات سے لوگوں کو ان کے جذبات سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کی کارروائیوں کا مقصد ووٹ بینک کا حصول ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG