واشنگٹن —
نامعلوم مسلح افراد نے نائجیریا کے شمال مشرقی علاقے میں واقع ایک اسکول سے کم از کم 100 بچیوں کو اغوا کر لیا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ اجتماعی اغوا کے اس واقعے سے قبل، پیر کے روز رات گئے بورنو میں چیبوک کے قصبے پر حملہ کیا گیا۔
ایک مقامی باشندے نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ’ہوسا سروس‘ کو بتایا ہے کہ نامعلوم حملہ آوروں نے گھروں، دفاتر اور طالبات کے ایک مقامی ثانوی اسکول کو نذر آتش کردیا؛ جس کے بعد اُنھوں نے بچیوں کو ایک ٹرک میں بٹھایا اور چلتے بنے۔
ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ تقریباً 200 طالبات کو اغوا کیا گیا ہے۔
علاقے میں موجود ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک نامہ نگار، عبد الکریم ہارونہ نے مقامی ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کچھ طالبات بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔
ہارونہ نے بتایا کہ مسلح افراد اور سکیورٹی فورسز کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہوا، جس واقعے میں ایک فوجی اور ایک پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔
سرکاری پولیس کمشنر، الحاج لاوان تنکو نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اُن کے اہل کار اغوا کاروں کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ابھی تک کسی نے حملے اور اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم، یہ حملہ بوکو حرام کے شدت پسند گروہ کی کارستانی معلوم دیتا ہے، جس نے 2009ء سے اب تک، جب سے یہ سرکشی شروع ہوئی ہے، بیسیوں حملے کیے ہیں جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ اجتماعی اغوا کے اس واقعے سے قبل، پیر کے روز رات گئے بورنو میں چیبوک کے قصبے پر حملہ کیا گیا۔
ایک مقامی باشندے نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ’ہوسا سروس‘ کو بتایا ہے کہ نامعلوم حملہ آوروں نے گھروں، دفاتر اور طالبات کے ایک مقامی ثانوی اسکول کو نذر آتش کردیا؛ جس کے بعد اُنھوں نے بچیوں کو ایک ٹرک میں بٹھایا اور چلتے بنے۔
ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ تقریباً 200 طالبات کو اغوا کیا گیا ہے۔
علاقے میں موجود ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک نامہ نگار، عبد الکریم ہارونہ نے مقامی ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کچھ طالبات بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔
ہارونہ نے بتایا کہ مسلح افراد اور سکیورٹی فورسز کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہوا، جس واقعے میں ایک فوجی اور ایک پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔
سرکاری پولیس کمشنر، الحاج لاوان تنکو نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اُن کے اہل کار اغوا کاروں کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ابھی تک کسی نے حملے اور اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم، یہ حملہ بوکو حرام کے شدت پسند گروہ کی کارستانی معلوم دیتا ہے، جس نے 2009ء سے اب تک، جب سے یہ سرکشی شروع ہوئی ہے، بیسیوں حملے کیے ہیں جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔