انسانی حقوق سے متعلق ایک گروپ کا کہنا ہے کہ بوکو حرام کے باغی گروہ کا قلع قمع کرنے کی سرکاری کارروائیوں کے نتیجے میں، نائجیریا کے 8000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بتایا ہے کہ اُس کے تحقیق کار اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سنہ 2009 سے اب تک نائجیریا کی فوج کی جانب سے مارے گئے چھاپوں کے دوران 1200 سے زائد افراد کو پھانسیاں دی گئیں۔
اُس کا کہنا ہے کہ کم از کم 7000مزید زیر حراست افراد اذیت، پیاس، بھوک یا پھر جیلوں میں شدید بھیڑ کے باعث ہلاک ہوئے۔
حقوق انسانی کے گروپ نے بتایا ہے کہ اعلیٰ فوجی اہل کاروں کو حراستوں اور اموات کی شرح میں اضافے کا پورا علم تھا، لیکن اُنھوں نے برے برتاؤ کی رپورٹوں پر کوئی تدارک نہیں کیا۔
ایمنسٹی نے صدر محمدو بوہاری کی قیادت والی نائجیریا کی نئی حکومت سے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
بوکو حرام سے بات چیت کے لیے، مسٹر بوہاری ہمسایہ ملک نائجر کا دورہ کر رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے عہدہ سنبھالنے کے بعد، یہ اُن ملک سے باہر اُن کا پہلا دورہ ہے۔
نئے صدر نے کہا ہے کہ بوکو حرام کے خلاف فوجی کارروائی کے اڈے کو ملک کے شمال مشرقی شہر، مدوگری منتقل کریں گے، جہاں اسلام پسندوں نے متعدد حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نائجیریا کے شمال مشرق میں چھ برس سے جاری اسلام پسند عناصر کی سرکشی کے نتیجے میں نائجیریا کے 15 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ تنازع میں اب تک تقریباً 17000 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔