امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں خلل ڈالنا تھا۔
بائیڈن کے تبصرے کے مطابق سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول لانے کا خواہش مند ہے اور وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتا ہے۔
بائیڈن نے یہ ریمارکس چندہ جمع کرنے کی ایک سیاسی تقریب میں دیے جب وہ مشرقِ وسطی کی صورت حال پر بات کر رہے تھے۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو ممکنہ طور پر معمول پر لانا امریکی وزیر خارنہ اینٹنی بلنکن کی جون کے دورۂ ریاض کے دوران اولین ترجیح تھی، ہر چند کہ انہوں نے اس وقت تسلیم کیا تھا کہ فوری طور پر کسی پیش رفت کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔
حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے ایک روز بعد بلنکن نے سی این این نیوز چینل کو بتایا تھا،"یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ (حملے کے لیے) محرک کا ایک حصہ سعودی عرب اور اسرائیل کو ایک ساتھ لانے کی کوششوں میں خلل ڈالنا تھا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی کوششوں کے بعد متحدہ عرب امارات اور بحرین نے سعودی آشرواد سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے ۔ تاہم سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ان ملکوں کی پیروی نہیں کی اور کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کے حصول کی جانب پیش رفت میں اہداف حاصل ہونے چاہیں۔
صدر بائیڈن کے مطابق حماس کے اسرائیل کی جانب بڑھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ وہ سعودیوں کے ساتھ بات چیت کرنے والے تھے ۔
"کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں؟ سعودی اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے تھے۔"
صدر بائیڈن نے گزشتہ اتوار کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں سی بی ایس چینل کے '60 منٹس' پروگرام میں کہا تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب میں تعلقات کے معمول پر آنے کا امکان "ابھی تک زندہ ہے، اس میں وقت لگے گا۔"
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملوں میں 4,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تل ابیب نے کہا ہے کہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کو آزاد کرانے کے لیے کارروائی کرے گا جب کہ اس گروپ کا صفایا کر دے گا۔
اس خبر میں شامل زیادہ تر معلومات 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم