11 ستمبر 2001 ءکے دہشت گرد حملوں کو 9 سال بیت چکے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں دہشت گردی کےخلاف شروع ہونے والی عالمی جنگ کےآغاز کا مقصد امریکہ پر ان حملوں کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا تھا۔ آج 9 سال گذر جانے کےبعد کے زمینی حقائق کی روشنی میں تجزیہ کار اس جنگ کے مستقبل کےبارے میں کئی سوال اٹھا رہے ہیں۔
11 ستمبر 2001 ءکے حملے دہشت گردی کی بد ترین تصویر تھے۔ ان حملوں میں تقریباً 3 ہزار عام شہری ہلاک اور 6 ہزارسے زیادہ زخمی ہوئے۔
امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈالی اور اس کی لیڈر شپ کو پسپا کرنے کے لیے 7اکتوبر 2001 ءکو اپنے اتحادیوں کی مدد سے افغانستان پر فضائی حملہ کر دیا ۔ اس کے بعد نیٹو اورچند غیر نیٹو ممالک بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے۔
اس سال اکتوبر میں اس جنگ کو شروع ہوئے 9 سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان برسوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کیا حاصل کیا ۔ اس بارے میں معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار مائیکل اوہنلن کہتے ہیں کہ ابھی تک افغانستان اتنا بہتر نہیں ہو سکا جہاں امریکہ اسے دیکھنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اور یہ یقیناً ایک مثبت کامیابی ہے۔ مگر یہ اختتام نہیں ہے کیونکہ ابھی تک اس کے بدلے کوئی دیرپا اقدام نہیں ہو سکا۔
اوہنلن کہتے ہیں کہ طالبان کی حکومت ظالم تھی اور اسلام کی غلط تصویر پیش کر رہی تھی۔وہ اپنے ہی لوگوں پر ظلم کر رہی تھی۔انہوں نے القاعدہ کو11 ستمبر کے حملے کی منصوبہ بندی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے اور جب صدر بش نے طالبان کو یہ موقع دیا وہ القاعدہ کو ہمارے حوالے کر دیں یا پھر کم سے کم انہیں تحفظ دینا بند کر دیں، تو طالبان نے انکار کر دیا۔
طالبان نے صدر جارج ڈبلیو بش کے اس مطالبے پر القاعدہ اور اس کے لیڈروں کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جسے امریکہ نے رد کر دیا۔
میڈا بنجمن ،کوڈ پنک نامی خواتین کی ایک امریکی تنظیم کی بانیوں میں سے ہیں۔ یہ تنظیم عراق اور افغانستان کی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ سے بہت نقصانات ہوئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس جنگ نے کئی امریکی فوجیوں کی جانیں لیں۔ بے تحاشہ معصوم افغان شہریوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوئے ، اور اس جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کا اندازہ اربوں ڈالروں میں ہیں ، جسے افغانستان کو بد ترین غربت سے نکالنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔
بنجمن کہتی ہیں کہ ہمیں ان لوگوں پر توجہ دینی چاہیے تھی جنہوں نے11 ستمبر کو ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہمارے پاس دنیا کی سب سے بہترین فوج ہے ۔ ڈرونز ہیں جو ہزاروں فٹ کی بلندی سے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی دیکھ سکتے ہیں۔لیکن ہم نہیں جانتے کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ان پر توجہ دینی چاہیے تھی جنہوں نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ نہ کہ ایک ایسی جنگ پرجو اب دسویں سال میں داخل ہو رہی ہے۔ جس سے ہم نے افغانستان کی حکومت کو ہٹا اور وہاں اپنی پسند کی حکومت بنا ئی۔
اسامہ بن لادن کہاں ہیں اس بارے میں کسی کو یقینی طورپر کچھ معلوم نہیں ہے، مگر ٕمغربی میڈیا اور افغان امور کے مغربی ماہرین کی طویل عرصے سے یہ رائے ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ دلچسپ پات یہ ہے کہ تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور امریکی حکومت کی طرف سے اسامہ بن لادن کی اطلاع دینے والے کے لیے پانچ کروڑ امریکی ڈالر کا انعام ہونے کے باوجود آج تک کسی کے پاس کوئی ٹھوس اطلاع نہیں ہے۔اوہنلن کا خیال ہے کہ وہ وزیرستان میں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہاں پاکستانی حکومت کی عملداری نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ وہ اس علاقے میں ہو سکتے ہیں۔ اور ان کے گرد ایسے لوگ ہیں جو امریکیوں سے پانچ کروڑ ڈالر لینے کہ ہر گز خواہشمند نہیں ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو بن لادن اور حقانی گروپ کے وفادار انہیں ہلاک کر دیں گے۔
مائیکل اوہنلن کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن تو پکڑے نہیں جا سکے مگر القاعدہ کافی کمزور ہو چکی ہے۔ ہم نے دنیا بھر کے اتحادیوں کے ساتھ، جن میں زیادہ تر مسلمان ممالک ہیں ، مل کر کافی کامیابی حاصل کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ القاعدہ اتنی مضبوط نہیں رہی جتنی کہ ہوا کرتی تھی۔میرا خیال ہے کہ اس کی لیڈر شپ بکھری ہوئی ہے اور بھاگ رہی ہے۔ ان کا آپس میں اس طرح کا رابطہ نہیں ہے جیسا کہ ہوا کرتا تھا۔ تو اس صورت حال کے پیش نظر ہمیں کسی حد تک پرامید رہنا چاہیے۔
11 ستمبر کے بعد سے افغانستان کی جنگ پر کھربوں امریکی ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ جبکہ سال 2010 ءمیں افغانستان کی جنگ کا بجٹ تین سو ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ میڈی بنجمن کے مطابق افغانستان کو ملٹری کی نہیں، ترقیاتی بجٹ کی ضرورت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ افغانستان دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں آج بھی خواتین زچگی کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں۔ جہاں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ اگر ہم جنگ پر خرچ کی جانے والی رقم کا دسواں حصہ بھی افغانستان کی ترقی پر صرف کریں تو لوگ اپنے گزر بسر کے لیے طالبان کے ساتھ نہیں ملیں گے۔
ماہرین کے مطابق افغانستان کی حکومت اور ادارے ابھی اتنے مضبوط نہیں ہے کہ ملک کی سیکیورٹی کا انتظام انہیں منتقل کر دیا جائے۔ یا یہ کہ وہ ملک کے اندر دہشت گرد طاقتوں کا مقابلہ کر سکیں۔
صدر اوباما نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کی شروعات کے لیے اگلے سال کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے مگر یہ بھی کہا ہے کہ انخلا کا فیصلہ افغانستان کے حالات کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ جبکہ بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی ،جب تک اس کی اگلی صفوں میں نیٹو کے بجائے افغان فوجی شامل نہ ہو جائیں۔