پاکستان کے قبائلی اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ایک ہی روز کے دوران دہشت گردی کے چار مختلف واقعات میں نو سیکیورٹی اہل کار ہلاک جب کہ چھ زخمی ہو گئے ہیں۔
جمعرات کو پیش آنے والے ان واقعات میں تین حملے شمالی وزیرستان جب کہ ایک جنوبی وزیرستان کے ملحقہ علاقے مکین میں پیش آیا۔
فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے فوجی قافلوں اور اہل کاروں پر تین جب کہ شمالی وزیرستان کی انتظامیہ نے فرنٹیئر کور کے نیم فوجی دستے پر ایک حملے کی تصدیق کی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ان حملوں میں سب سے ہلاکت خیز حملہ شمالی وزیرستان کے افغانستان سے ملحقہ تحصیل دتہ خیل کے علاقے میدان میں ہوا۔ جہاں عسکریت پسندوں نے جدید خودکار ہتھیاروں سے سیکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی پر حملہ کرکے سات اہل کاروں کو ہلاک کر دیا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں ہونے والے حملے میں ایک جوان ہلاک اور ایک زخمی اور میر علی کے گاؤں خڈی میں فرنٹیئر کور کی ایک چوکی پر حملے میں ایک اہل کار زخمی ہوا۔
رواں ماہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہلاک ہونے والے اہل کاروں کی تعداد 24 جب کہ زخمیوں کی 18 تک جا پہنچی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں بھی عسکریت پسندوں کے حملوں میں رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران افسران سمیت 79 فوجی اہل کاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس عرصے کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک جب کہ 270 کو گرفتار کیا گیا۔
رواں ہفتے خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والایہ تیسر احملہ ہے اور ان حملوں میں مجموعی طور پر سیکیورٹی فورسز کے لگ بھگ 22 اہل کار ہلاک اور متعد زخمی ہو چکے ہیں۔
پس منظر
افغانستان کی سرحد سے متصل جنوبی او رشمالی وزیرستان کے علاوہ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں چند سال پہلے شدت پسند عناصر کے گروہ سرگرم رہے ہیں لیکن سیکیورٹی فورسز کی طرف سے ہونے والے آپریشنز کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسند فرار ہو کر سرحد پار منتقل ہو گئے تھے۔
سیکیورٹی فورسز کے ان آپریشنز کے بعد اگرچہ کافی حد عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی واقع ہوئی لیکن شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں مکمل طور پر ختم نہ ہو سکیں ۔
گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے برسراقتدر آنے کے بعد پاکستانی عہدیدار اور مبصرین یہ توقع کر رہے تھے کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) او ر دیگر شدت پسند عناصر کی کارروائیوں میں کمی ہو گی ۔لیکن ان توقعات کے برعکس صوبہ خیبر پختونخوا خاص طور پر افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
تحریکِ طالبان کی ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے
گزشتہ کئی ماہ سے ملک بھر بالخصوص خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان ہی قبول کرتی رہی ہے۔