پاکستان نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے اب تک اس کے نو شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ 17 زخمیوں میں سے 10 کو طبی علاج کے بعد اسپتالوں سے فارغ کیا جا چکا ہے۔
دفتر خارجہ نے ہلاک و زخمی ہونے والے پاکستانی حجاج کی تفصیلات جاری کیں جس کے مطابق مرنے والوں میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔
جمعرات کو منیٰ میں حج کے رکن "رمی جمرات" جسے عام طور پر "شیطان کو کنکریاں" مارنا بھی کہا جاتا ہے، کی ادائیگی کے دوران اچانک بھگدڑ مچ گئی تھی جس سے 717 افراد ہلاک اور 863 زخمی ہوگئے تھے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق تاحال 236 پاکستانی حجاج لاپتا ہیں جن میں سے 86 سے رابطہ ہو چکا ہے جب کہ دیگر سے رابطہ کرنے کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کے ڈائریکٹر حج نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں یہ تعداد 316 بتائی تھی۔
لاپتا حاجیوں سے رابطے کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں سے پاکستانی حاجیوں کی شناخت کا معاملہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہے اور حکام کے مطابق اس ضمن میں سعودی حکام کے ساتھ مکمل رابطہ رکھتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
سعودی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ بظاہر اس واقعے کی وجہ حج کے لیے وضع کردہ حفاظتی ہدایات پر حاجیوں کی طرف سے عمل نہ کرنا ہوسکتی ہے لیکن اس کی مکمل تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
اس سال حج کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے بیس لاکھ سے زائد مسلمان سعودی عرب میں ہیں اور منیٰ میں پیش آنے والا واقعہ گزشتہ 25 برسوں کے دوران حج کے موقع پر ہونے والا سب سے ہلاکت خیز واقعہ ہے۔
1990ء میں منیٰ ہی میں بھگدڑ مچنے سے 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
سعودی حکام کی طرف سے تاحال جمعرات کو ہونے والے واقعے میں مرنے والوں کی شہریت اور شناخت کے بارے میں تفصیلات باضابطہ طور پر جاری نہیں کی گئی ہیں لیکن بھارت، انڈونیشیا، مراکش، مصر اور مختلف افریقی ملکوں نے اس میں اپنے شہریوں کی ہلاکت کا بتایا ہے۔ ایران نے اس میں اپنے 131 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
ادھر پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ان کی حکومت نے منیٰ کے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
بیان کے مطابق انھوں نے یہ بات پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے گفتگو میں کہی جنہوں نے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ان سے ملاقات کی تھی۔
مزید برآں سعودی وزیر خارجہ نے سرتاج عزیز کو ان اقدام کے بارے میں آگاہ کیا جو مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کے لیے سعودی حکومت نے کیے ہیں۔