بلوچستان کے ضلع نوشکی کے قریب کوئٹہ سے ایران جانے والی قومی شاہراہ پر مسلح افراد نے ایک مسافر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو اغوا کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔
پولیس کے مطابق، یہ واقعہ جمعہ کی شب اس وقت پیش آیا جب ایرانی سرحد سے متصل علاقے تفتان جانے والی ایک مسافر بس نوشکی کے قریب "سلطان چڑھائی" پر پہنچی جہاں پہلے سے ناکہ لگائے مسلح افراد نے فائرنگ کی اور بس کو روک لیا۔
نوشکی پولیس کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسلح افراد نے بس روکنے کے بعد تمام مسافروں سے ان کے قومی شناختی کارڈز طلب کیے اور پنچاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو الگ کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
پولیس، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ فورسز ک اغواء کاروں کی تلاش کے دوران ایک پل کے نیچے سے 9 افراد کی لاشیں ملی جنہیں سر پر گولیاں مار کرقتل کیا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سرکاری سطح پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ نوشکی میں مسافروں کا قتل ایک غیر انسانی فعل ہے جو ایک ناقابل معافی جرم ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "دہشت گردوں کو ان کے منتقی انجام تک پہنچایا جائے گا"۔
واقعے کے بعد مسافروں نے کوئٹہ تفتان قومی شاہراہ کو بلاک کر کے مسلح افراد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور مرکزی شاہراہ بلاک کر دی۔
ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق صوبہ پنجاب کے علاقے منڈی بہاوالدین اور گوجرانوالہ سے بتایا جاتا ہے۔
ادھر سلطان چڑھائی کے قریب فائرنگ کے واقعے کے دوران بلوچستان عوامی پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی غلام دستگیر بادینی کی گاڑی فائرنگ کی زد میں آئی اور اس کے ٹائر برسٹ ہونے سے وہ الٹ گئی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جب کہ 6 زخمی ہو گئے۔
گاڑی ایم پی اے غلام دستگیر بادینی کے بھائی چلا رہے تھے جو حادثے میں زخمی ہو گئے ہیں۔
ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو میر گل خان نصیر ٹیچنگ ہسپتال نوشکی منتقل کر دیا گیا ہے جہاں پہلے ہی ایمرجنسی نافذ کرکے اسٹاف کو رات گئے طلب کیا گیا تھا۔
نوشکی شہر سمیت شاہراہوں پر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق بس سے اتار کر ہلاک کیے جانے والے افراد انسانی اسمگلنگ کے ذریعے تفتان کے راستے ایران اور وہاں سے یورپ جانا چاہتے تھے۔
ماضی میں بھی صوبہ پنجاب کے وسطی علاقوں گجرات، منڈی بہاؤ الدین، حافظ آباد و دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ غیر قانونی طور پر تفتان کے راستے ایران اور وہاں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جن میں سے بعض کو ایران میں فورسز نے گرفتار کر کے پاکستان کے وفاقی ادارے فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے حوالے کیا۔
نوشکی بلوچستان کا ایک اہم ضلع ہے جو صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے تقریباً 147 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ماضی میں بھی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو شناخت کے بعد اغواء اور قتل کرنے کے واقعات ہو چکے ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں بھی بلوچستان کے شورش زدہ علاقے کیچ سے نامعلوم مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پانچ مزدوروں کو اغواء کیا جو کہ تحصیل ہوشاب میں نجی موبائل کمپنی کے ایک موبائل ٹاور کی تنصیب کے کام میں مصروف تھے۔
اس سے قبل سال 2013 میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی آٹھ مسافر بسوں کو بولان کے علاقے مچھ کے قریب روک کر شناخت کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے 14 مسافروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سلطان چڑھائی اور ملحقہ علاقے سیکورٹی کے حوالے سے حساس ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہ اکہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں سے ہو سکتا ہے تاہم اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی بھی گروہ یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
فورم