اس ہفتےامریکی ریاست، میری لینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے،’انڈین ہیڈ‘ میں 19 برس کے میئر، برینڈن پالن نے عہدہ سنبھالا۔ انڈین ہیڈ کا قصبہ 4000مکینوں پر مشتمل ہے۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ وہ کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے۔ تقریب میں شرکت کے لیے وہ اپنی عمر کے ایک ساتھی کے ہمراہ، سائیکل پر تشریف لائے۔ میئر اور اُن کا دوست، دونوں ہی بے روزگار ہیں۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار، ڈبورا بلاک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ برینڈن پالن نے اس امید کا اظہار کیا کہ کاروبار کو فروغ دینے کے لیے چھوٹے پیمانے پر اسٹور کھولے جائیں گے۔
اس موقع پر 26 سالہ برائن لیلز نے پالن کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے خوش ہو کر کہا کہ یہ بات انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ ایک نوجوان ہمارا میئر بنا ہے۔
پالن نے 69 برس کے سابق میئر کی جگہ لی ہے۔ انڈین ہیڈ دو دریاؤں کے درمیان 2.5 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا دلکش علاقہ ہے۔ یہ قصبہ ایک امریکی بحری اڈے اور ایک مصروف ہائی وے پر جاکر ختم ہوتا ہے، جب کہ شہر کا وسطی علاقہ واشنگٹن ڈی سی کے شمال تک پھیلا ہوا ہے، جہاں سے واشنگٹن آنے کے لیے گاڑی میں صرف ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
انڈین ہیڈ میں بہت سارے چھوٹے کاروباری ادارے قائم ہیں؛ جہاں ہائی وے کے ساتھ ساتھ بہت پرانے گھر ہیں، جہاں تین رویہ سڑکیں ہیں، جب کہ چند ہی نئے گھر اور ٹاؤ ن ہاؤسز ہیں۔
پالن نے کہا کہ گاڑی سے سفر کرکے جب کچھ لوگ شہر میں داخل ہوتے ہیں،اور اُن کی نظر زبون حال عمارات پر پڑتی ہے، تو وہ آگے کا رُخ کرنے کی بجائے واپس چلے جاتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ حوصلہ شکن تاثر کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاؤں کا۔ بہت جلد ایسا وقت آئے گا جب اس پرانے شہر کی رونقیں بحال ہوجائیں گی، جہاں کاروبار فروغ پائے گا، پیسے کی ریل پیل ہوگی اور لوگ یہاں آنا اور رہنا پسند کریں گے۔
بقول اُن کے، ’یہ بہت پرانی بات نہیں جب لوگ بڑی تعداد میں انڈین ہیڈ آیا کرتے تھے۔ کاروبار کو پرکشش بنانے کے لیے، مراعات کی پیش کش کی جائے گی، اور یوں، اس قصبے کی رونقیں لوٹ آئیں گی‘۔
پالن نے کہا کہ مخدوش عمارات کے وہ مالک جو انڈین ہیڈ میں نہیں رہتے، وہی دراصل اس مسئلے کی جڑ ہیں، کیونکہ اُنھیں اپنی خالی ملکیت پر ٹیکس میں چھوٹ میسر آتی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ ایک پروگرام شروع کرنے والے ہیں جس کے تحت عمارتوں کو خالی رکھنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ پھر بھی، اگر کوئی عمارت خالی رہی تو اُس پر سالانہ فی ادا کرنی پڑے گی، اور رفتہ رفتہ اِس رقم میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس طرح، مالک کو فائدے کی جگہ نقصان ہوگا اور وہ مجبور ہوگا کہ کاروبار پر دھیان اور اُسے اولیت دے۔
کسی زمانے میں پالن ایک اسٹور پر ٹوفیاں لینے جایا کرتا تھا۔ اسٹور کی مالکن، کیلی مرفی کا کہنا ہے کہ اُنھیں کم عمر میئر پر پورا اعتماد ہے۔ بقول اُن کے، ’میرے لیے کم عمری بے معنی ہے۔ مجھے پتا ہے کہ وہ بہت خوش ہیں، اور اس بات کا احساس ہے کہ اُس سے ملنے والے لوگ جوش و جذبہ محسوس کرتے ہیں۔ اور اِس قصبے میں اب تک اِسی کیفیت کی کمی تھی‘۔
میئر کی والدہ، وینڈی پالن کہتی ہیں کہ اُن کے بیٹے میں یہ جذبہ ہے کہ وہ قصبے کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی چیلنج سے نہیں ڈرتا۔ جب اُس کا سابقہ کسی مسئلے سے پڑتا ہے تو وہ اُسے حل کرکے ہی دم لیتا ہے۔
پالن کو شہر کی سیاست سے اُس وقت سے دلچسپی ہے جب وہ ابھی 10 سال کا تھا۔
پالن کی سالانہ تنخواہ صرف 6000 ڈالر ہوگی۔
وہ اپنے گھر میں رہتے ہیں اور کالج کی تعلیم آن لائن مکمل کر رہے ہیں۔ وہ عہدے کے فرائض انجام دیں گے، لیکن، کیونکہ اُن کی عمر 21 برس نہیں ہے، اس لیے، میری لینڈ کے قانون کے مطابق، وہ الکوہل نہ تو خرید سکتے ہیں نہ پی سکتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں کے دوران، 18 اور 19 برس کے نوجوان امریکہ کے دوسرے چھوٹے قصبوں میں میئر منتخب ہوچکے ہیں۔