امریکہ کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فورسز افغان طالبان اور ان سے منسلک شدت پسندوں کا تعاقب کرتے ہوئےبین الاقوامی سرحد کو عبور کرنے کا کوئی ارداہ نہیں رکھتیں۔
امریکہ کے محکمہ دفاع کے ترجمان لیفٹنینٹ کرنل مائیک اینڈریوز نے 'پژواک افغان نیوز ' ایجنسی کو بتایا کہ امریکہ کے فوجی حکام صرف افغانستان کی سرحد کے اندر موجود ہیں اور انہیں پاکستان میں جانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اگر کوئی شدت پسند گروپ پاکستان میں موجود ہیں تو ان سے نمٹنا پاکستان کا کام ہے جبکہ ان کی توجہ صرف افغانستان پر مرکوز ہو گی۔
امریکی عہدیدار کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ سال صدر ڈونلڈٹرمپ کے افغانستان سے متعلق ان کی پالیسی بیان اور رواں سال کے آغاز میں ان کی ٹویٹ کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ امریکہ پاکستانی علاقے میں مبینہ طور پر موجود حقانی نیٹ ورک کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکتا ہے۔
سینئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہا کہ امریکی عہدیدار کے تازہ بیان سے ان خدشات کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا " اس بیان کا یہ مطلب ہے جو ابہام پہلے پیدا ہوا تھا کہ وہ امریکی حکام نے ختم کر دیا ہے اور اب ان کی (شدت پسندوں کے خلاف) کارروائی افغانستان کے اندر ہو گی اور امریکہ کی فورسز پاک افغان سرحد کو پار نہیں کریں گے ۔"
انہوں نے مزید کہا "اس کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو اعتماد کی کمی ہے اسے کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملے اور اس بیان کو ایک اعتماد سازی کا اقدام قرار دیا جائے گا۔ "
تاہم حسن عسکری نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے ان شدت پسندوں کے خلاف مزید اقدامات کے مطالبات جاری رہیں گے جو میبنہ طور پر افغانستان میں عسکری کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
دوسری طرف امریکی محکمہٴ خارجہ کی ترجمان، ہیدر نوئرٹ نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان نے درست سمت میں کچھ مثبت اقدامات کیے ہیں تاہم ان کے بقول دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کے سلسلے میں پاکستان کو زیادہ ذمہ داری دکھانے کی ضرورت ہے۔
امریکی عہدیداروں کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے بھی جاری ہیں۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر مائیک پینس سے واشنگٹن میں ملاقات میں ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کے بارے میں گفتگو ہوئی جس میں ایک بار پھر امریکہ کی طرف سے پاکستان سے ملک میں مبینہ طور موجود طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف مزید کارروائی کرنے کے کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا۔
پاکستان کا موقف ہے کہ وہ ہر قسم کے شدت کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے ہاں شدت پسندوں کے ایسے ٹھکانے نہیں ہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوں تاہم اگر واشنگٹن کوئی قابل عمل انٹیلی جینس فراہم کرتا ہے تو اسلام آباد کارروائی کرنے پر تیار ہے۔