گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے واشنگٹن میں امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات کی۔ 30 منٹ کی اس ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ملاقات میں ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کے بارے میں گفتگو ہوئی، جس میں نائب صدر پینس نے صدر ٹرمپ کی اس درخواست کو دہرایا کہ پاکستانی حکومت ملک میں موجود طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف مزید کارروائی کرے‘‘۔
بیان کے مطابق، ’’نائب صدر نے وزیر اعظم عباسی کو بتایا کہ امریکہ اُن دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کیلئے کوششیں جاری رکھے گا جو امریکی سلامتی اور خطے کے استحکام کیلئے خطرے کا باعث ہیں‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’--اس مقصد کیلئے پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے اور اسے ایسا ہی کرنا چاہئیے‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ نے اس ملاقات کے حوالے سے پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما سنیٹر عبدالقیوم سے خصوصی گفتگو کی جس میں اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ پاکستان کے نقطہٴ نظر کو بخوبی سمجھتا ہے۔ تاہم، بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات اور دیگر اسٹریٹیجک وجوہات کی بنا پر امریکہ کا بیانیہ بدستور پاکستان مخالف رہا ہے‘‘۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے نجی دورہٴ واشنگٹن کے دوران نائب صدر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا ’’اور اس ملاقات کے دوران اُنہوں نے کھل کر پاکستانی مؤقف کی وضاحت کی اور امریکی نائب صدر کو بتایا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں امریکہ سے مکمل تعاون کرے گا اور پوری کوشش کرے گا کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مزاکرات کی میز پر لائے‘‘۔ تاہم، شاہد خاقان عباسی نے نائب صدر پینس کو بتایا کہ ’’طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ زیادہ نہیں ہے، اور امریکہ کو پاکستان کی مجبوری بھی سمجھنی چاہئیے‘‘۔
سنیٹر قیوم نے بتایا کہ ’’اس کے جواب میں، امریکی نائب صدر نے کہا کہ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے کی جانی والی کوششیں واضح طور پر دکھائی دینی چاہئیں جن میں حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی نظر آئے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اس پر، پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ تاہم، پاکستان میں موجود 27 لاکھ افغان مہاجرین کی صفوں کے اندر بہت سے دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور ان افغان مہاجرین پر نظر رکھنے کیلئے پاکستان کو بین الاقوامی قوتوں کی مدد درکار ہوگی، تاکہ اس بات پر نظر رکھی جا سکے کہ افغانستان سے کون پاکستان آ رہا ہے اور کون افغانستان جا رہا ہے‘‘۔
سنیٹر قیوم نے کہا کہ ’’ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کے حوالے سے یہ ملاقات بہت اچھی رہی‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے پہلے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں جو ٹویٹ کی تھی وہ ایک طرح سے ایک ایسے خود مختار ملک کے خلاف چارج شیٹ تھی جہاں 20 کروڑ سے زیادہ لوگ بستے ہیں اور پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ اس سے اُن کی توہین کی گئی تھی۔
اُنہوں نے کہا کہ ’’پاکستان نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ ہمیں امریکہ کی مالی مدد نہیں چاہئیے، بلکہ صرف اعتماد چاہئیے، تاکہ پاکستان اپنی پوری کوشش کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اشتراک عمل کے ساتھ مشترکہ مقاصد حاصل کرے‘‘۔
سنیٹر قیوم کے مطابق ’’پاکستان نے امریکہ پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے روس اور چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہیں‘‘۔
قبل ازیں، ایک سینئر امریکی عہدیدار نے رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’امریکہ پاکستان سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف جن کارروائیوں کا مطالبہ کر رہا ہے، پاکستان اُن کے حوالے سے انتہائی کم کارروائیاں کرتا ہے‘‘۔ امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ ’’بظاہر پاکستان امریکی مطالبات کے مطابق کچھ کارروائی کرتا دکھائی تو دیتا ہے، لیکن وہ صرف اتنی ہی کارروائی کر رہا ہے جس سے امریکہ کو کسی قدر مطمئن کرنے کی کوشش کر پائے‘‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کی سیکورٹی فورسز اب بھی افغان طالبان کی پشت پناہی کر رہی ہیں‘‘۔
پاکستانی حکومت کی وضاحت سے قطع نظر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ پاکستان کے بارے میں امریکی حکومت کے بیانیے کی ترشی و تندی قدرے کم ہوئی ہے، امریکہ کی طرف سے پاکستان سے ’ڈو مور‘ کے مطالبے کی شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر سے ’ون ٹو ون ملاقات‘ اعلیٰ ترین سطح پر رابطے کا مظہر ضرور ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ، دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو کم کرنے میں ایسے رابطے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔