امن کا نوبیل انعام 2013ء کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’آرگنائزیشن فار پروہیبیشن آف کیمیکل وپینز‘ یعنی او پی سی ڈبلیو کو دیا گیا ہے۔
اس تنظیم کے کارکن شام میں کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
نوبیل انعام کی کمیٹی نے یہ اعلان جمعہ کو ناروے کے شہر اوسلو میں کیا اور انعام باقاعدہ طور پر دسمبر میں ہونے والی ایک تقریب میں دیا جائے گا۔
پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو امن کے نوبل انعام برائے سال 2013ء کے لیے پسندیدہ اُمیدوار میں سے ایک قرار دیا جا رہا تھا اور اسی باعث پاکستان میں ٹیلی وی چینلز نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ہونے والی تقریب براہ راست دکھائی۔
رواں سال نوبل امن انعام کے لیے 259 امیدوار تھے جن میں پچاس سے زائد مختلف تنظیمیں بھی شامل تھیں اور اس انعام کی رقم بارہ لاکھ پچاس ہزار امریکی ڈالر ہے۔
پاکستانی طالبہ کے علاوہ کانگو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینس موکویج بھی اس انعام کے لیے ایک مضبوط امیدوار تھے۔
ملالہ یوسف زئی نے پاکستان کے شورش زدہ علاقے سوات میں اس وقت لڑکیوں کی حق تعلیم کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی جب یہاں طالبان شدت پسندوں نے قبضہ کر کے علاقے میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کو پوری طرح سے ممنوع قرار دے رکھا تھا۔
فوجی آپریشن کے ذریعے حکومت نے سوات پر سرکاری عمل داری بحال کروائی لیکن نو اکتوبر 2012 کی دوپہر اسکول سے گھر واپس جاتے ہوئے ملالہ یوسف زئی پر شدت پسندوں نے قاتلانہ حملہ کیا۔
اس حملے میں ملالہ کے سر میں گولی لگی اور انھیں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ پاکستان میں کچھ دن زیر علاج رہنے کے بعد انھیں برطانیہ کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ مکمل صحت یابی تک زیر علاج رہیں۔
طالبان شدت پسندوں نے انھیں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر گولیوں کا نشانہ بنایا تھا لیکن یہ حملہ اس کم سن طالبہ کے حوصلے کو پست نہ کرسکا اور اس کی آواز پاکستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔
ملالہ یوسف زئی کو اس سے قبل بھی متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جب کہ اقوام متحدہ نے 12 جولائی کو ملالہ کی سالگرہ کو ’’ملالہ ڈے‘‘ سے منسوب کیا۔
یہ باہمت پاکستانی طالبہ متعدد بار اپنے انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ لڑکیوں کے تعلیم کے جدوجہد جاری رکھیں اور اس کے لیے انھیں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں۔
رواں ہفتے ہی طالبان شدت پسندوں نے ایک بار پھر ملالہ پر جان لیوا حملے کی دھمکی دی ہے لیکن ملالہ نے اس کے ردعمل میں بے خوف ہو کر کہا کہ ایسی دھمکیاں انھیں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتیں۔
ملالہ یوسفزئی کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی پر پاکستان بھر میں مسرت کا اظہار کیا جارہا تھا اور لوگوں کو کہنا ہے کہ یہ پورے ملک کے لیے ایک اعزاز ہے۔
وفاقی وزیرِ مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ یوسفزئی کے کردار کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔
’’ملالہ کا کردار مددگار بھی ہو گا اور ہماری بچیوں کے لیے مشعل راہ بھی جو دیکھیں گی کہ ملالہ نے تعلیم کے لیے کوشش کی ہے اور اس کی کوششوں کو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ نوبیل امن انعام کے لیے ملالہ کی نامزدگی از خود ایک اعزاز کی بات ہے۔
’’یہ پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ خود پاکستان اور دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تعلیم مذہبی و اخلاقی فرض کے ساتھ ساتھ ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کا حاصل کرنا ہر شخص کی۔‘‘
وزیرِ مملکت نے کہا کہ پاکستان کو تعلیم کے میدان میں اتنا پیچھے نہیں ہونا چاہیئے تھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اس مقام پر کھڑا ہے۔
’’مگر ہم نے اپنے آپ سے، ملک سے اور اقوامِ عالم سے یہ عزم کیا ہے کہ ہم نے اس صوت حال کو تبدیل کرنا ہے۔‘‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لوگوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ملالہ یوسفزئی پر بعض حلقوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کی ہمت اور جذبہ سب لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
سوات کے قریب واقع علاقے دیر سے تعلق رکھنے والی عذرا نفیس یوسفزئی خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قدامت پسندوں کی تنقید سے قطع نظر ملالہ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی پاکستان کے لیے فخر کی بات ہے۔
’’بہت کم عمر میں اس (ملالہ) نے ایسی باتیں کیں جو ہمارے بڑے بڑے لیڈر نہیں کرسکتے، اس نے اس وقت طالبان کے کاموں کی مذمت کی جب کوئی اس پر بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘
ایک نجی ادارے سے وابستہ کاشف انور کا کہنا تھا کہ ملالہ پوری دنیا کے لیے ’’ ایک مثال ہے، اس کی نامزدگی ہی سے دنیا میں پاکستان کے نام اور تشخص کو بہتر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘
ملالہ یوسفزئی ان دنوں اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔
اس تنظیم کے کارکن شام میں کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
نوبیل انعام کی کمیٹی نے یہ اعلان جمعہ کو ناروے کے شہر اوسلو میں کیا اور انعام باقاعدہ طور پر دسمبر میں ہونے والی ایک تقریب میں دیا جائے گا۔
پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو امن کے نوبل انعام برائے سال 2013ء کے لیے پسندیدہ اُمیدوار میں سے ایک قرار دیا جا رہا تھا اور اسی باعث پاکستان میں ٹیلی وی چینلز نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ہونے والی تقریب براہ راست دکھائی۔
رواں سال نوبل امن انعام کے لیے 259 امیدوار تھے جن میں پچاس سے زائد مختلف تنظیمیں بھی شامل تھیں اور اس انعام کی رقم بارہ لاکھ پچاس ہزار امریکی ڈالر ہے۔
پاکستانی طالبہ کے علاوہ کانگو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینس موکویج بھی اس انعام کے لیے ایک مضبوط امیدوار تھے۔
ملالہ یوسف زئی نے پاکستان کے شورش زدہ علاقے سوات میں اس وقت لڑکیوں کی حق تعلیم کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی جب یہاں طالبان شدت پسندوں نے قبضہ کر کے علاقے میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کو پوری طرح سے ممنوع قرار دے رکھا تھا۔
فوجی آپریشن کے ذریعے حکومت نے سوات پر سرکاری عمل داری بحال کروائی لیکن نو اکتوبر 2012 کی دوپہر اسکول سے گھر واپس جاتے ہوئے ملالہ یوسف زئی پر شدت پسندوں نے قاتلانہ حملہ کیا۔
اس حملے میں ملالہ کے سر میں گولی لگی اور انھیں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ پاکستان میں کچھ دن زیر علاج رہنے کے بعد انھیں برطانیہ کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ مکمل صحت یابی تک زیر علاج رہیں۔
طالبان شدت پسندوں نے انھیں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر گولیوں کا نشانہ بنایا تھا لیکن یہ حملہ اس کم سن طالبہ کے حوصلے کو پست نہ کرسکا اور اس کی آواز پاکستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔
ملالہ یوسف زئی کو اس سے قبل بھی متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جب کہ اقوام متحدہ نے 12 جولائی کو ملالہ کی سالگرہ کو ’’ملالہ ڈے‘‘ سے منسوب کیا۔
یہ باہمت پاکستانی طالبہ متعدد بار اپنے انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ لڑکیوں کے تعلیم کے جدوجہد جاری رکھیں اور اس کے لیے انھیں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں۔
رواں ہفتے ہی طالبان شدت پسندوں نے ایک بار پھر ملالہ پر جان لیوا حملے کی دھمکی دی ہے لیکن ملالہ نے اس کے ردعمل میں بے خوف ہو کر کہا کہ ایسی دھمکیاں انھیں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتیں۔
ملالہ یوسفزئی کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی پر پاکستان بھر میں مسرت کا اظہار کیا جارہا تھا اور لوگوں کو کہنا ہے کہ یہ پورے ملک کے لیے ایک اعزاز ہے۔
وفاقی وزیرِ مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ یوسفزئی کے کردار کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔
’’ملالہ کا کردار مددگار بھی ہو گا اور ہماری بچیوں کے لیے مشعل راہ بھی جو دیکھیں گی کہ ملالہ نے تعلیم کے لیے کوشش کی ہے اور اس کی کوششوں کو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ نوبیل امن انعام کے لیے ملالہ کی نامزدگی از خود ایک اعزاز کی بات ہے۔
’’یہ پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ خود پاکستان اور دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تعلیم مذہبی و اخلاقی فرض کے ساتھ ساتھ ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کا حاصل کرنا ہر شخص کی۔‘‘
وزیرِ مملکت نے کہا کہ پاکستان کو تعلیم کے میدان میں اتنا پیچھے نہیں ہونا چاہیئے تھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اس مقام پر کھڑا ہے۔
’’مگر ہم نے اپنے آپ سے، ملک سے اور اقوامِ عالم سے یہ عزم کیا ہے کہ ہم نے اس صوت حال کو تبدیل کرنا ہے۔‘‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لوگوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ملالہ یوسفزئی پر بعض حلقوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کی ہمت اور جذبہ سب لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
سوات کے قریب واقع علاقے دیر سے تعلق رکھنے والی عذرا نفیس یوسفزئی خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قدامت پسندوں کی تنقید سے قطع نظر ملالہ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی پاکستان کے لیے فخر کی بات ہے۔
’’بہت کم عمر میں اس (ملالہ) نے ایسی باتیں کیں جو ہمارے بڑے بڑے لیڈر نہیں کرسکتے، اس نے اس وقت طالبان کے کاموں کی مذمت کی جب کوئی اس پر بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘
ایک نجی ادارے سے وابستہ کاشف انور کا کہنا تھا کہ ملالہ پوری دنیا کے لیے ’’ ایک مثال ہے، اس کی نامزدگی ہی سے دنیا میں پاکستان کے نام اور تشخص کو بہتر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘
ملالہ یوسفزئی ان دنوں اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔