رسائی کے لنکس

بھارت: تین دہائیوں میں پہلی بار کانگریس کا سربراہ گاندھی خاندان سے نہیں ہوگا


24 برسوں میں پہلی بار کانگریس کی صدارت کے لیے میدان میں آنے والے امیدواروں کا تعلق نہرو گاندھی خاندان سے نہیں ہے۔
24 برسوں میں پہلی بار کانگریس کی صدارت کے لیے میدان میں آنے والے امیدواروں کا تعلق نہرو گاندھی خاندان سے نہیں ہے۔

بھارت کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس پارٹی ایک تاریخی مرحلے سے گزر رہی ہے کیوں کہ گزشتہ 24 برسوں کے دوران پہلی مرتبہ پارٹی کی صدارت کے انتخاب کے کسی امیدوار کا تعلق گاندھی نہرو خاندان سے نہیں ہے۔

کانگریس پارٹی کی 137 سالہ تاریخ میں صدارت کے لیے چھٹی مرتبہ انتخابات ہو رہے ہیں جس میں ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ پیر کو ڈالے گئے ووٹوں کی کی گنتی بدھ کو ہوگی۔بھارت میں حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت کی سربراہی کے لیے پارٹی کے سینئر رہنما ملک ارجن کھرگے اور ششی تھرور کے درمیان مقابلہ ہے۔

اس سے قبل 2000 میں پارٹی کے صدارتی انتخاب ہوا تھا، جس میں سینئر رہنما جتیندر پرساد نے سونیا گاندھی سے مقابلہ کیا تھا۔ جتیندر پرساد کو زبردست شکست ہوئی تھی۔ سونیا گاندھی کو 7400 ووٹ ملے تھے جب کہ جتیندر پرساد کو محض 94 ووٹ حاصل کرپائے تھے۔

سونیا گاندھی کو 1998 میں پارٹی کا صدر نامزد کیا گیا تھا جس کے بعد وہ 2017 تک اس منصب پر فائز رہیں۔ ان کی سربراہی میں کانگریس پارٹی 2004 اور 2009 کے پارلیمانی انتخابات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی جب کہ دونوں بار سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیرِ اعظم کے عہدے کے منصب کے لیے چنا گیا۔

سونیا گاندھی کے بیٹے راہل گاندھی کو 2017 میں کانگریس پارٹی کا صدر نامزد کیا گیا تھا البتہ انہوں نے 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی بری طرح شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دی تھا، جس کے بعد سونیا گاندھی کو قائم مقام صدر نامزد کیا گیا تھا۔

کانگریس میں صدارتی انتخاب کا طریقۂ کار کیا ہے؟

بھارت میں کانگریس واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں صدر کا انتخاب ڈیلی گیٹس یا مندوبین کرتے ہیں۔ اس کے لیے بیلٹ پیپر سے خفیہ رائے شماری ہوتی ہے۔

کانگریس پارٹی کے سیکریٹری انچارج مواصلات جے رام رمیش کے مطابق اس انتخاب کی تاریخی اہمیت ہے۔ اس سے قبل 1939، 1950، 1977، 1997 اور 2000 میں ڈیلی گیٹس کے ووٹوں سے پارٹی صدر کا انتخاب کیا گیا تھا۔

جے رام رمیش کے مطابق کانگریس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں بیلٹ پیپر سے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ دوسری کوئی اور پارٹی اپنے صدر کا اس طرح انتخاب نہیں کرتی، وہاں صرف نامزدگی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ کانگریس میں بیش تر مواقع پر اتفاق رائے سے صدر کا انتخاب ہوتا رہا ہے۔

ملک ارجن کھرگے کو سونیا گاندھی کا وفادار تصور کیا جاتا ہے۔
ملک ارجن کھرگے کو سونیا گاندھی کا وفادار تصور کیا جاتا ہے۔

کانگریس پارٹی کے دستور کی دفعہ 18 کے مطابق ریاستی کانگریس کمیٹیوں کے تمام ارکان، ریاستی صدور اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی ورکنگ کمیٹی کے ارکان ڈیلی گیٹس ہوتے ہیں۔

صدر کے لیے 10 ڈیلی گیٹس کسی کا بھی نام تجویز کر سکتے ہیں۔ سات دن کے اند رکاغذات نامزدگی واپس لیے جا سکتے ہیں۔ اگر کاغذات کی واپسی کے بعد صرف ایک امیدوار بچتا ہے تو اسے بلا مقابلہ منتخب قرار دے دیا جاتا ہے۔

اگر میدان میں صرف دو امیدوار ہیں تو رائے دہندگان کسی ایک کو منتخب کرتے ہیں لیکن اگر دو سے زائد ہیں تو وہ ایک دو تین کرکے ترجیحی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ ہر ریاست کے پارٹی دفتر میں ووٹ ڈالنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ووٹنگ سے قبل ڈیلی گیٹس کی فہرست جاری کی جاتی ہے۔ اس وقت کانگریس پارٹی میں 9000 سے زائد ڈیلی گیٹس ہیں۔

موجودہ انتخاب کی اہمیت

کانگریس پارٹی کی صدارت کے لیے ہونے والے موجودہ انتخاب پر بھارت سے باہر عالمی ذرائع ابلاغ کی بھی نظریں ہیں۔ یہ انتخاب چوں کہ 22 برس کے بعد ہو رہا ہے اور نہرو گاندھی خاندان کا کوئی شخص امیدوار نہیں ہے جس کی وجہ سے اس انتخاب کے نتائج اور اس کے کانگریس پر اثرات کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔

سینیر صحافی مودود علی صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً 70 برس سے کانگریس کو دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے متعدد صدارتی انتخابات پر گہری نظر رکھی ہے۔

ان کے مطابق پہلی مرتبہ کانگریس کے صدر کے انتخاب میں اتنی گہما گہمی اور جوش و خروش دکھائی دے رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کئی لحاظ سے اس انتخاب کی اہمیت ہے۔ اس وقت کانگریس اپنے سب سے مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ 2014 کے بعد سے اسے مسلسل شکست کا سامنا ہے۔ نہ تو سونیا گاندھی پارٹی میں کوئی جان پھونک سکی ہیں اور نہ ہی راہل گاندھی کواس میں کامیابی ملی ہے۔

ان کے مطابق چوں کہ نہرو گاندھی خاندان کا کوئی شخص امیدوار نہیں ہے اس لیے پارٹی پر انتخاب کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

ان کے خیال میں ملکی سیاست بھی متاثر ہوگی۔ ملک ارجن کھرگے کانگریس رہنماؤں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جب کہ ششی تھرور دوسری نسل کے سیاست دان ہیں۔

یاد رہے کہ ملک ارجن کھرگے راجیہ سبھا کے رکن اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف ہیں لیکن کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد انہوں نے ایک شخص ایک عہدہ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ ششی تھرور کیرالہ کے اننت پورم سے لوک سبھا کے رکن ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں اور سیاست میں آنے سے قبل اقوام متحدہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ششی تھرور سیاست میں آنے سے قبل اقوامِ متحدہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ششی تھرور سیاست میں آنے سے قبل اقوامِ متحدہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

مودود صدیقی کے مطابق دونوں کے کانگریس کی صدارت کے دونوں امیدواروں کے نظریات و خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کھرگے کو سونیا گاندھی کا وفادار سمجھا جاتا ہے۔ ان کی کامیابی کی صورت میں پارٹی میں کچھ زیادہ بدلاؤ نہیں آئے گا لیکن اگر ششی تھرور کامیاب ہو گئے تو پارٹی کا ڈھانچہ تبدیل ہو جائے گا۔تاہم مودود صدیقی اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ اس انتخاب سے پارٹی کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کانگریس پر جمہوریت کے فقدان کا الزام لگاتی ہے اور اسے ایک ’پریوار‘ یعنی گاندھی خاندان کی ملکیت ہونے کا طعنہ بھی دیتی آئی ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ خود بی جے پی کے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ بی جے پی میں آج تک صدر کا انتخاب نہیں ہوا ہے۔ اس کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جس کو پسند کرتی ہے اس کو صدر نامزد کر دیا جاتا ہے۔

مودود صدیقی کے مطابق آج تک بی جے پی میں ایسا کوئی صدر نہیں ہوا جس کی پشت پر آر ایس ایس کا ہاتھ نہ رہا ہو۔

تاریخی پس منظر

انڈین نیشنل کانگریس ایک برطانوی ایڈمنسٹریٹر ایلن ہیوم نے 1885 میں قائم کی تھی جس کا مقصد برطانوی حکومت اور بھارتی عوام کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنا تھا۔ بعد میں جب ہندوستان کی آزادی کے لیے تحریک کا آغاز ہوا تو کانگریس بھی اس میں شامل ہو گئی اور برصغیر سے برطانوی حکومت کے خاتمے میں کانگریس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اس وقت سے لے کر 1947 تک اس کے درجنوں صدور آئے جن میں پنڈت جواہر لعل نہرو، ان کے والد موتی لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے سیاست دان بھی شامل رہے۔

کانگریس پارٹی کے لیے صدر کا سب سے پہلا انتخاب 1939 میں ہوا تھا جس میں گاندھی جی کے امیدوار پٹابھی سیتارمیا کو نیتا جی سبھاش چندر بوس کے مقابلے میں شکست ہوئی تھی۔

آزادی کے بعد 1950 میں انتخاب ہوا جس میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے امیدوار پرشوتم داس ٹنڈن نے پنڈت نہرو کے امیدوار آچاریہ کرپلانی کو شکست دی تھی۔ 1977 میں کے برہمانند ریڈی سدھارتھ شنکر رے اور کرن سنگھ کو ہراکر صدر منتخب ہوئے تھے۔

اگلا الیکشن 20 برس بعد 1997 میں ہوا جس میں سیتا رام کیسری نے شرد پوار اور راجیش پائلٹ کو شکست دی تھی۔ اس کے بعد 2000 میں سونیا گاندھی نے جتیندر سنگھ کو ہرایا تھا۔

اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور سابق وزیر اعظم نرسمہا راو بھی پارٹی صدر رہ چکے ہیں۔ لیکن بعد میں رفتہ رفتہ یہ تاثر قائم ہوتا چلا گیا کہ پارٹی پر نہرو گاندھی خاندان کا اثر ہے اور پارٹی میں کوئی بھی فیصلہ اس خاندان کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جاتا حالانکہ تاریخی حقائق اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ 137سال پرانی پارٹی کی صدارت کا منصب مذکورہ خاندان میں بمشکل 40 برس رہا ہوگا لیکن بعض سیاسی جماعتیں بالخصوص بی جے پی اس پر خاندانی پارٹی ہونے کا الزام عائد کرتی ہے۔

اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے ہی راہل گاندھی نے فیصلہ کیا کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی شخص صدر نہیں بنے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG