جمعرات کی رات جزیرہ نما کوریا اور جاپان کے درمیان واقع سمندر میں دو میزائل گرے جن کے متعلق جنوبی کوریا اور جاپان کے فوجی عہدے داروں کو شبہ ہے کہ وہ شمالی کوریا کی طرف سے آئے تھے۔
شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے مذاکرات معطل ہو جانے کے بعد تقریباً ایک ماہ کے وقفے سے میزائل داغے جانے کا یہ واقعہ پیش آیا ہے۔
جاپان کے حکام نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں یہ بیلسٹک میزائل کا تجربہ تھا۔ اس سے قبل شمالی کوریا کی جانب سے میزائل کے تجربات کو امریکی عہدے داروں نے یہ کہتے ہوئے اہمیت نہیں دی تھی کہ وہ کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تھے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے میزائلوں سے متعلق اپنے متعدد بیانات میں کہا ہے کہ یہ میزائل جمعرات کی شام جنوبی پھیانگن صوبے سے تقریباً تین منٹ کے وقفے سے داغے گئے تھے۔
دونوں میزائلوں نے اپنے اہداف پر گرنے سے پہلے 370 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا کہنا تھا کہ وہ کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تھے۔ تاہم، ان کی نوعیت کی شناخت نہیں ہو سکی۔
جاپان کی وزارت دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بظاہر یہ بیلسٹک میزائل تھے جو شمالی کوریا سے داغے گئے تھے۔ تاہم، وہ ہماری حدود میں نہیں گرے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے میزائل تجربات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ہم شمالی کوریا کی جانب سے میزائل داغے جانے کی خبروں سے آگاہ ہیں۔ ہم صورت حال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور جاپان اور جنوبی کوریا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میزائل لانچ کیے جانے کا واقعہ کشیدہ صورت حال کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ شمالی کوریا کے لیڈر کم جانگ ان اور صدر ٹرمپ کے درمیان تین ملاقاتوں کے باوجود، شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے اور بیلسٹک میزائل کے تجربات سے روکنے پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔