شمالی کوریا کے تازہ ترین بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تجربات کا تجزیہ کرنے والے مغربی ماہرین یہ تخمینہ لگا رہے ہیں کہ آیا پیانگ یانگ بحرالکاہل میں اپنے بیلسٹک میزائل ایک خاص رفتار سے فائر کر کےامریکہ پرحقیقی حملے کی صلاحیت حاصل کرنے والا ہے۔
ماہرین نے وی او اے کی کورین سروس کو بتایا کہ اس طرح کے ٹیسٹ کا مقصد شمالی کوریا کی طرف سے اس صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہے کہ وہ امریکہ کی سرزمین تک جوہری ہتھیاروں کو فائرکرسکتا ہےاوراس کے ساتھ اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ آیا بائیڈن انتظامیہ اسے راستے میں روکنے کی کوشش میں کامیاب ہو سکے گی ۔
شمالی کوریا نے کہا کہ اس نے 16 مارچ کو ایک Hwasong-17بیلسٹک میزائل لانچ کیا تاکہ امریکہ اورجنوبی کوریا کو ’’سخت انتباہ‘‘ دیا جائے۔ واضح رہے کہ اتحادی اپنی 11 روزہ فریڈم شیلڈ فوجی مشقیں شروع کر چکے ہیں۔ مشقوں کے شروع ہونے کے تیسرے دن شمالی کوریا نے بیلسٹک میزائل کا یہ تجربہ کیا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق، Hwasong-17 کوگولی کے انداز میں خلا میں چھوڑا گیا تھا جس نے اسے شمالی کوریا کے مشرقی ساحل کے پانیوں میں گرنے سے پہلے 6000 کلومیٹر سے زیادہ کی بلندی اورتقریباً 1000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔
شمالی کوریا نے اپنے بیلسٹک میزائل کا مکمل رینج ٹیسٹ نہیں کیا ہے جس میں دور ماراورنچلی پرواز کے راستے شامل ہیں گویا ان کا نشانہ کسی دور کے دشمن پر ہے۔ ابھی یہ تجربہ صرف بلند رفتارپرکیا ہے۔
Hwasong-17 کی زیادہ سے زیادہ رینج 15000 کلومیٹر ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ امریکہ میں کہیں بھی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ Hwasong-15 کی رینج تقریباً 13000 کلومیٹر ہے، جس سے یہ تقریباً تمام براعظم امریکہ تک پہنچنے کے قابل ہے۔
ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے سیٹلائٹ اورخلائی ماہرجوناتھن میک ڈویل نے کہا، ’’اس بات کا کافی امکان ہے کہ وہ ایسا ٹیسٹ کر سکتے ہیں‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا شمالی کوریا آپریشنل رفتار پربیلسٹک میزائل فائر کرتا ہے یا نہیں؟
رینڈ کارپوریشن کے ایک سینئر دفاعی تجزیہ کار، بروس بینیٹ نے کہا کہ یہ غیر یقینی ہے کہ ’’آیاصدر بائیڈن کم یو جونگ کے کہنے کے بعد ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں، یہ جنگ کا عمل ہوگا‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ، ’’ہمیں شمالی کوریا کو دکھانا ہوگا کہ وہ یہ انتہائی اشتعال انگیزی جاری نہیں رکھ سکتا۔ لیکن ہمیں یقین نہیں ہے کہ صدر بائیڈن میں ایسا کرنے کی ہمت ہوگی‘‘۔
سینٹر فار ایشیا پیسیفک اسٹریٹجی کے نائب صدر ڈیوڈ میکسویل نے کہا، ’’ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس ایسے میزائل مناسب جگہ پرنصب نہ ہوں جوبحرالکاہل کے وسط میں نشانہ بنانے والے میزائل کو مار گرائیں‘‘۔
میکسویل نے مزید کہا کہ ’’اگر یہ امریکہ یا اتحادیوں کے علاقے میں کسی ہدف کو نشانے پر نہیں رکھ رہا ہے، تواسے مار گرانے کا امکان نہیں ہے کیونکہ ہماری دفاعی صلاحیتیں صرف امریکہ اوراتحادیوں کے علاقوں تک پھیلی ہوئی ہیں‘‘۔
بینیٹ نے کہا کہ اگر شمالی کوریا اسے خط استوا کے نیچے جنوبی بحرالکاہل میں داغتا ہے توامریکہ کی جانب سے میزائل کو روکنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا، ’’اگر یہ ہوائی کے قریب کے علاقے کو نشانہ بناتا ہے، تو اس کے روکنے کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے‘‘۔
میکسویل نے کہا کہ ’’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہم یہ جان سکیں گے کہ آیا کوئی میزائل جوہری لوڈ لے کرجا رہا ہے جب تک کہ ہمارے پاس بہت مستعد انٹیلی جنس نہ ہو‘‘۔
وی او اے نیوز