پاکستان کے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں نامعلوم افراد نے پمفلٹ تقسیم کیے ہیں جن میں قبائلی رہنماؤں کو سول اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ میل جول نہ رکھنے کی تنبیہ اور خلاف وزری کی صورت میں سخت کاروائی کی دھمکی دی گئی ہے۔
یہ پمفلٹس افغانستان سے منسلک شمالی وزیرستان میں جمعرات اور جمعے کے درمیانی شب 'شورٰی شمالی وزیرستان' نامی شدت پسند تنظیم کی جانب سے تقسیم کیے گئے ہیں جس کا سربراہ شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر ہے۔
واضح رہے کہ 'ضربِ عضب' کے نام سے 15 جون 2014ء کو شمالی وزیرستان میں شروع کی گئی فوجی کاروائی کا ہدف بھی حافظ گل بہادر اور اس کے وفادار جنگجو تھے۔
پمفلٹس میں تنظیم نے علاقے میں حال ہی میں گھات لگا کر قتل کرنے کے واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور پختون تحفظ تحریک کے رہنما محسن داوڑ نے اس پمفلٹ کی تقسیم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومت اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن ضربِ عضب لگ بھگ ساڑھے چار سال جاری رہا اور اس آپریشن کے دوران علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے مگر علاقے میں اب بھی امن ومان کی صورتِ حال ابتر ہے۔
تجزیہ کار اور فوج کے سابق افسر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا ہے کہ حافظ گل بہادر سرحد پار افغانستان میں ساتھیوں سمیت چھپا ہوا ہے اور اس کے ساتھی وہاں سے سرحدی چوکیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
محمود شاہ نے پختون تحفظ تحریک کا نام لیے بغیر کہا کہ بعض افراد کے مطالبے پر سکیورٹی فورسز کی چوکیوں کے خاتمے کے بعد اب یہ عسکریت پسند واپس علاقے میں آگئے ہیں اور پر تشدد کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران حافظ گل بہادر اور حکومت کے درمیان مصالحت کی خبریں بھی گردش کرتی رہی تھیں۔
محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ قبائلی عوام ایسی کسی مصالحت کو تسلیم نہیں کریں گے اور دہشت گردی میں ملوث تمام افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے۔
شمالی وزیرستان کی انتظامیہ نے بارہا رابطے کرنے کے باوجود پمفلٹس کی تقسیم پر مؤقف دینے سے گریز کیا ہے۔