بم کی تیاری میں استعمال ہونےوالا مواد تیارکرنے اور اسے ناروے میں چند ماہ قبل 75 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والےعیسائی شدت پسند آندریس بیرنگ بریوک کو فراہم کرنے کے شبہ میں پولینڈ کی پولیس نے 19 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
پولینڈ کی داخلی سیکیورٹی کے ادارے کی جانب سے جمعرات کو کیے گئے اعلان کے مطابق گرفتاریاں ناروے کی پولیس کی جانب سے کی جانے والی وسیع تر تحقیقات کے نتیجے میں کی گئی ہیں۔
پولینڈ کی پولیس بریوک کو دھماکہ خیز مواد فراہم کرنے والے کئی مبینہ افراد تک 1500 صفحات پر مشتمل اس کے اس منشور کے ذریعے پہنچی ہے جسے ملزم نے انٹرنیٹ پر جاری کیا تھا۔
منشور میں بریوک نے پولینڈ سے اس سامان کی خریداری کا اعتراف کیا تھا جسے بعد ازاں اس نے اوسلو میں واقع نارویجن حکومت کے مرکزی دفاتر کے باہر کیے گئے بم حملے میں استعمال کیا۔
کاروائی کے دوران پولینڈ کی پولیس نے 85 گھروں کی تلاشی بھی لی۔
اس سے قبل جمعرات کو ناروے کے حکام نے اعلان کیاتھا کہ وہ رواں برس جولائی میں 77 افراد کو قتل کرنے کے مقدمہ میں عدالتی کاروائی کے منتظر بریوک کی قیدِ تنہائی ختم کر رہے ہیں۔
استغاثہ کے وکیل کرسٹیان ہالٹو نے اوسلو میں صحافیوں کو بتایا کہ تفتیش کاروں کو یقین ہوگیا ہے کہ دارالحکومت میں سرکاری دفاتر کے باہر بم حملے اور بعد ازاں ایک نزدیکی جزیرے پر نوجوانوں کے کیمپپ میں فائرنگ کرنے کی کاروائی بریوک نے تنِ تنہا انجام دی تھی۔
ہالٹو نے کہا کہ حکام عدالت سے 32 سالہ ملزم کی قیدِ تنہائی میں توسیع کی درخواست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے جس کی مدت آئندہ پیر کو ختم ہورہی ہے۔ تاہم وکیل نے واضح کیا کہ بریوک کو اس کی اپنی حفاظت کی غرض سے جیل کے دیگر قیدیوں سے علیحدہ رکھا جائے گا۔
حکام نے بریوک کو 22 جولائی کو حراست میں لیا تھا جس کے بعد سے اسے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ یورپ میں اس جیسے 80 اسلام دشمن گروپ موجود ہیں جو حملہ کرنے کے منتظر ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسے ایسے کسی گروہ کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
واضح رہے کہ ناروے کی پولیس نے پولینڈ سمیت 20 مختلف ممالک کے حکام سے بریوک کے روابط اور ملزم جانب سے دھماکہ خیز مواد کی خریداری کے مزید شواہد اکٹھا کرنے کی غرض سے تحقیقات میں تعاون اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کرنے کی درخواست کی تھی۔
بریوک قتلِ عام کا اعتراف کرچکا ہے تاہم اس کے باوجود ملزم کے وکلاء کا موقف ہے کہ ان کا موکل واقعہ کی مجرمانہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری ہے کیوں کہ اس کے بقول وہ سمجھتا ہے کہ اس کا یہ اقدام ناروے اور یورپ کو مسلمانوں کے اثر سے محفوظ رکھنے اور کثیر الثقافتی رجحان قبول کرنے والے سیاست دانوں کوسبق سکھانے کے لیے ضروری تھا۔