ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد پاکستان میں بھی اس امید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس پڑوسی ملک کے ساتھ تجارتی روابط میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے گا جو خطے میں خوشحالی کا باعث بنے گا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کے ایک منصوبے پر برسوں سے کام جاری ہے جس کے تحت پاکستان میں گیس درآمد ہوگی لیکن تہران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ تاحال التوا کا شکار چلا آرہا تھا لیکن معاہدے کے بعد اب اس ضمن میں پیش رفت کی امید قوی ہو گئی ہے۔
پاکستان کے پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر شاہد خان عباسی کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس کے ایک ہزار ارب روپے کے مختلف منصوبے جاری ہیں جن میں پاک ایران گیس پائپ لائن اور قدرتی مائع گیس (ایل این جی) کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
مختلف پاکستانی قانون ساز بھی اس معاہدے کو پاکستان اور ایران کے تعلقات میں مزید پیش رفت کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری برائے وزارت خزانہ و اقتصادی امور رانا محمد افضل کہتے ہیں کہ اب نہ صرف یہ کہ گیس پائپ لائن منصوبے میں پیش رفت ہوگی بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم بھی بڑھے گا جس سے بلا شبہ تعلقات میں استحکام آئے گا۔
"جب کاروباری تعلقات بڑھتے ہیں تو آپ کے دوستانہ تعلقات بھی مضبوط ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار بھی بڑھ جاتا ہے۔۔۔تو پھر اگر کوئی تھوڑا بہت تناؤ آ بھی جائے تو دونوں ملکوں کا مفاد اس میں ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اس سے کوئی گڑبڑ نہ ہو۔"
حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ ایران کی اقتصادیات بہتر ہونے سے خطے اور خصوصاً پڑوسی ممالک پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔
"ایران کے ساتھ ہمارا بہت پرانا تعلق ہے گوکہ ہم اسے بوجہ اچھی طرح نہیں نبھا سکے لیکن میرا خیال ہے کہ اب دونوں ملکوں کے عوام کا خطے کے عوام کا حق بنتا ہے کہ ان کی قیادت ایسے فیصلے کرے کہ ان کا معیار زندگی بہتر ہو اور ان کا مستقبل محفوظ ہو۔"
پاکستان کی ایران کے ساتھ جنوب مغرب میں تقریباً نو سو کلومیٹر طویل سرحد ہے اور اس ملک میں زمینی راستہ پاکستانی صوبہ بلوچستان سے جاتا ہے۔ ایک عرصے سے یہاں مختلف اشیاء کی اسمگلنگ خاص طور پر ایران سے غیر قانونی طور پر تیل کی پاکستان درآمد ہوتی رہی ہے۔
شبلی فراز کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں تجارتی روابط بڑھنے سے اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔