امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے ایک نئے سیکیورٹی اتحاد کا اعلان کیا ہے جس کے تحت آسٹریلیا کو نیوکلیئر سب میرینز مہیا کی جائیں گی اور یہ اتحاد انڈوپیسفک تعلقات کی نئی جہتیں بھی تلاش کرے گاجو علاقائی حدود سے باہر بھی ممکن ہو سکتی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس اتحاد میں شامل ملکوں پر اس کے اثرات کا الگ الگ جائزہ لیا ہے۔
امریکہ
دس سال پہلے صدر براک اوباما کے دور میں امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے تنازعوں سے توجہ ہٹاتے ہوئے انڈو پیسیفک خطے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر دھیان دینا شروع کیا تھا۔
اب صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے فوجیں واپس بلا لی ہیں اور انہیں اندازہ ہوا ہے کہ چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں تک بحرالکاہل کے خطے کا تعلق ہے، امریکہ اور دیگر ممالک کو جنوبی بحیرہ چین میں چین کے اقدامات پر تشویش رہی ہے خاص طور پر اس کے جاپان، تائیوان اور آسٹریلیا سے متعلق مخالفانہ رویے کے بارے میں۔
امریکہ کی جانب سے نیوکلئیر سب میرین کے اس معاہدے کے اعلان کے وقت کسی بھی لیڈر نے چین کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم، چین نے اس اتحاد کو اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔
اس سے پہلے امریکہ نے جوہری طاقت سے متعلق یہ ٹیکنالوجی صرف برطانیہ کو دی تھی۔ صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ ان کا یہ اقدام انڈو پیسیفک خطے میں طویل المدت امن اور استحکام کے فروغ کے لئے ہے۔
برطانیہ
بریگزٹ کے تحت یورپی یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ عالمی سطح پر اپنی پوزیشن دوبارہ مستحکم کرنے میں کوشاں ہے اور اس کا ایک حصہ انڈو پیسیفک کی جانب توجہ میں اضافہ بھی ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ نیا اتحاد تینوں ممالک کو دنیا کے اس تیزی سے پیچیدہ ہوتے حصے پر مزید توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اور شاید سب سے اہم یہ کہ اس کے ذریعے تینوں ممالک مزید قریب آجائیں گے۔
آسٹریلیا
جہاں تک آسٹریلیا کا تعلق ہے، ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کے زیرِ انتظام آسٹریلیا، امریکی مہارت استعمال کرتے ہوئے کم از کم آٹھ نیوکلئیر سب میرینز تیار کرے گا اور فرانس کے ساتھ ڈیزل سب میرینز تیار کرنے کا معاہدہ ختم کردے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیوکلئیر سب میرینز آسٹریلیا کو طویل بحری گشت میں مدد دیں گی اور خطے میں اس اتحاد کی مضبوط فوجی موجودگی کا باعث ہوں گی۔
آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم سکاٹ موریسن نے کہا ہے کہ انہوں نے اس نئے اتحاد کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے جاپان اور بھارت کے وزرائے اعظم سے فون پر بات کی ہے۔
جاپان، بھارت، آسٹریلیا اور امریکہ کے درمیان اہم امور پر رابطے کے لئے 'کواڈ' نامی انتظام پہلے سے موجود ہے اور آئندہ ہفتے صدر بائیڈن 'کواڈ' کے لیڈروں سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔
فرانس
فرانس اور آسٹریلیا کے درمیان سب میرینز بنانے کا ڈی سی این ایس نامی معاہدہ پہلے سے موجود تھا۔ مگر اب آسٹریلیا فرانس کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی بارہ روایتی سب میرینز بنانے کا اربوں ڈالر کا یہ معاہدہ ختم کر رہا ہے۔
فرانس شدید برہم ہے اور سب فریقوں سے وضاحت طلب کر رہا ہے۔
فرانس انفو ریڈیو پر بات کرتے ہوئے فرانسیسی وزیرِ خارجہ یاں ایو لو دیگیاں نے کہا، "یہ پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کیا اور اس اعتماد کو دھوکہ دیا گیا ہے"
چین
چین نے اس تمام صورتِ حال پر انتہائی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس اتحاد سے علاقائی امن اور استحکام کو شدید نقصان پہنچے گا اور ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
چین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کا جوہری ٹیکنالوجی برآمد کرنا "انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے،" اور یہ کہ دو طرفہ تعلقات منقطع ہونے کا ذمے دار آسٹریلیا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان، یاؤ لی جیانگ نے کہا ہے کہ فوری ردعمل یہ ہے کہ آسٹریلیا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں رخنے کی درست وجوہات کا ادراک کرے اور پوری طرح غور کرے کہ آیا وہ چین کو ایک ساتھی سمجھنا چاہتا ہے یا ایک خطرہ۔
بیجنگ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سنکیانگ کے علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ہانگ کانگ میں جمہوریت پسندوں کو کچلنے کی کارروائیوں اور سائیبر سیکیوریٹی کی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھانے پر ناخوش رہا ہے۔
صدر بائیڈن نے گذشتہ ہفتے چین کے صدر شی جن پنگ سے فون پر بات کی تھی۔ گفتگو کے بعد چین کی سرکاری خبرساں ایجنسی شنہوا نے خبر دی تھی کہ شی نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی حکومت کی چین سے متعلق پالیسی نے تعلقات میں بڑی رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔
نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ آسٹریلیا کا ہمسایہ ملک ہے مگر اس اتحاد میں اسے شامل نہیں کیا گیا۔ نیوزی لینڈ طویل عرصے سے ایٹمی عدم پالیسی پر گامزن ہے جس میں ایٹمی طاقت رکھنے والے جہازوں کے اس کی بندرگاہ میں داخلے پر پابندی ہے۔
اس کا یہ مؤقف بعض اوقات امریکہ سے اس کے اچھے تعلقات پر اثر انداز ہو چکا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کو اس اتحاد میں شامل ہونے کے لئے نہیں کہا گیا اور نہ ہی اس نے اس دعوت کی توقع کی تھی۔
(اس خبر میں معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)