وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کی شام نئی دہلی کے راشٹرپتی بھون میں منعقدہ ایک شاندار تقریب میں دوسری میعاد کے لیے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
ان کی جماعت نے عام انتخابات میں کثیر اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی، اور یوں وہ کئی عشروں کے بعد ملک کے طاقت ور ترین رہنما کے طور پر نمودار ہوئے ہیں۔
حلف برداری کی خصوصی تقریب میں تقریباً 8000 مہمان مدعو کیے گئے تھے، جن میں آٹھ ملکوں کے سربراہان شریک تھے، ان کا تعلق بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور میانمار سے تھا۔ ایسے میں جب کہ چین خطے میں اپنی جگہ بنا رہا ہے، مودی نے اپنی توجہ بھارت کے ہمسایہ ملکوں پر مرکوز کی ہوئی ہے۔
تاہم، تقریب میں پاکستان کی نمائندگی نہیں تھی۔
نریندی مودی نے اپنی انتخابی مہم قومی سلامتی کے معاملے پر لڑی۔ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی نہیں دی، جو پانچ برس قبل قائم کردہ اس روایت کے خلاف ہے جب مہمانوں میں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف بھی شامل تھے۔
تجزیہ کار اس کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ حریف ملک کے ساتھ امن مذاکرات کا جلد انعقاد ممکن نہیں لگتا، جس کی وجہ فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے وہ خودکش حملہ ہے جس بھارتی سیکورٹی فورسز کے 40 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں پہلے سے جاری تناؤ اتنی شدت اختیار کر گیا تھا کہ جنگ کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔
حلف برداری کی تقریب سے قبل، مودی نے جمعرات کی صبح جنگ کی یادگار کا دورہ کیا، جس کا حالیہ دنوں میں افتتاح کیا گیا ہے۔
ایک ٹوئٹ میں، مودی نے کہا کہ ’’ہماری حکومت بھارت کے اتحاد اور سلامتی کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ قومی سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے‘‘۔
2014ء کے مقابلے میں حلف برداری کی یہ تقریب زیادہ بڑی تھی، جس کے مہمانوں میں کارپوریٹ دنیا کے معروف نام اور بالی ووڈ کے نامور ستارے بھی شامل تھے۔
کرغزستان اور ماریشئس کے سربراہان نے بھی حلف برداری کی اس تقریب میں شرکت کی۔