رسائی کے لنکس

فلسطینی ریاست 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پرہونا چاہیئے: اوباما


فلسطینی ریاست 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پرہونا چاہیئے: اوباما
فلسطینی ریاست 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پرہونا چاہیئے: اوباما

اُنھوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کی سرحدوں کی حد وہ ہو جہاں 1967ء میں تھی، اور دونوں کو باہمی رضامندی سے تبادلہ کرنا چاہیئے، تاکہ دونوں ملکوں کے لیے محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدیں قائم کی جائیں

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی بنیاد ’دو ریاستوں ‘ پر ہونی چاہیئے، جِن میں اسرائیل کی سرحدیں شرائط کے ساتھ اس کی 1967ء کی سرحدوں کے اندر ہوں۔

وہائٹ ہاؤس سے’ وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کینٹ کلائن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صدر نے فریقین پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا۔

صدر اوباما نے فلسطینیوں کے ایک کلیدی مطالبے کے حوالے سے کہا کہ سرحدوں کا تعین اُن حدود کی بنیاد پر کیا جائے جو 1967ء کے چھ روزہ جنگ سے پہلے تھیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کی سرحدوں کی حد وہ ہو جہاں 1967ء میں تھی، اور دونوں کو باہمی رضامندی سے تبادلہ کرنا چاہیئے، تاکہ دونوں ملکوں کے لیے محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدیں قائم کی جائیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجامن نتن یاہو نے کہا ہےکہ امریکی پالیسی کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔

مسٹر اوباما جمعے کے روز اسرائیلی لیڈر کی وائٹ ہاؤس میں میزبانی کریں گے جس کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ یہ ایک ایسی میٹنگ ہوگی جس کے دوران اختلافات دیکھنے میں آئیں گے۔

صدر اتوار کے روز امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی سے بھی خطاب کریں گے جو ملک میں اسرائیل نواز لابیئنگ ادارہ ہے۔

اِس دوران، فلسطینی صدر محمود عباس مسٹر اوباما کے خطاب سے متعلق فوری طور پر عرب لیڈروں سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔

صدر نے 46منٹ کے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تمام تر وقت اسرائیل فلسطینی امن مذاکرات کے مسئلے پر صرف کیا، جو گذشتہ ستمبر سے تعطل کا شکار رہا ہے۔

صدر نے کہا کہ بالآخر یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ عملی اقدام اٹھائیں۔اُن پر امریکہ یا کوئی امن مسلط نہیں کرسکتا نہ ہی لامتناہی تاخیر سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

صدر اوباما نے فریقین سے دوٹوک بات کی اور اُنھوں نے فلسطینیوں کو انتباہ کیا کہ اسرائیل کو ناجائز قرار دینے کا نتیجہ ناکامی ہوگا۔

مسٹر اوباما نے خبردار کیا کہ حالات کو ’جوں کا توں‘ نہیں رکھا جاسکتا اور اسرائیل کو امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جراٴت مندانہ قدم اٹھانا چاہیئے۔

اُنھوں نے کہا کہ یروشلم کے مستقبل کا معاملہ اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مستبقل کے مسائل کو حل کرنا ابھی باقی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اِس وقت علاقائی اور سلامتی کے اصول پر آگے بڑھنے سے دونوں مذہبوں کو منصفانہ طریقے سے حل کرنے کی بنیاد فراہم ہوتی ہے ، جِس سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے حقوق اور امنگوں کا احترام ہوتا ہے۔

صدر نے حال ہی میں فلسطینیوں کے فتح اور حماس دھڑوں کے الحاق سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا بھی ذکر کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ آپ کس طرح سے ایسی پارٹی سے مذاکرات کرسکتے ہیں جو اِس بات کو مانتی ہی نہیں کہ آپ کو زندہ رہنے کا حق ہے۔

آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں فلسطینی لیڈروں کو اِس سوال کا قابلِ اعتبار جواب دینا ہوگا۔

اِس دوران امریکہ اور ہمارے چار ساجھے داروں اور عرب ملکوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اِس حالیہ تعطل سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

اُن کی تقریر کے بعد حماس نے مسٹر اوباما پر گمراہ کرنے اور اسرائیل کے ساتھ جانبداری کا الزام لگایا۔

جمعے سے مستعفی ہونے والے مشرق وسطیٰ سے متعلق خصوصی امریکی سفیر جار ج مچیل اُن لوگوں میں شامل تھےجو محکمہٴ خارجہ میں صدر کے خطاب کے دوران موجود تھے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG