واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اُن کےبرما کے دورے کا مقصد حکومت کی توثیق کرنا نہیں، بلکہ یہ ملک میں جاری سیاسی اصلاحات کے عمل کو تسلیم کرنے کے مترادف ضرور ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ برما نے مزید سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ، جس بات کی ہمت افزائی لازم ہے۔
اُن کے بقول، تاہم وہ نہیں سمجھتے کہ کسی کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ برما کہاں کھڑا ہے اور اُسے کہاں جانا ہے۔’ دوسری طرف، اگر ہم اُس وقت کا انتظار کرتے کہ وہاں کب مثالی جمہوریت نافذ ہوتی ہے، تو مجھے خدشہ ہے کہ اِس میں طویل عرصہ لگ جاتا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے دورے کا مقصد وہاں کی جانےوالی پیش رفت کی نشاندہی کرنا اور اُن اقدامات کا ذکر اذکار کرناتھا جو آئندہ برما کو لینے ہوں گے۔
مسٹر اوباما نے یہ بات تھائی وزیر اعظم ینگ لک شِنواترا کے ہمراہ ایک اخباری کانفرنس کے دوران کہی۔
تقریبا ًدو ہفتے قبل انتخاب جیتنے کےبعد اپنے پہلے غیر ملکی دورےپر اُنھوں نےایشیائی ملک تھائی لینڈ میں قیام کیا، جہاں سے وہ برما اور کمبوڈیا کے دورے پر روانہ ہوں گے۔
دورے سےاِس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ مسٹر اوباما ایشیا کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ایسے میں جب وہ دوسری چار سالہ مدت صدارت کے دوران امریکی معیشت کو مضبوط کرنے پر دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، وہ ایشیا کے دورے پر روانہ ہوئے ہیں۔ اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کا آئندہ کا محور ایشیا ہوگا۔
مسٹر اوباما پیر کو پربا پہنچیں گے۔ وہ اِس ملک کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر ہوں گے، جوعشروں سے جاری رہے والی سخت فوجی حکمرانی کے دور سے باہر نکل آیا ہے۔ برما کی حکومت نے حالیہ عرصے کے دوران جمہوری اصلاحات شروع کی ہیں، تاہم انسانی حقوق سے وابستہ کچھ گروپوں نے انتباہ کیا ہے کہ ابھی تک یہ آزاد ملک کا درجہ نہیں رکھتا۔
صدر اوباما برما کے صدر تھین سائن اور ملک کی جمہوریت کی سرگرم کارکن آن سانگ سوچی سے ملاقات کریں گے۔ سوچی تقریباً دو عشروں تی قید یا گھر میں نظر بند رہنے کے بعد، 2010ء سے آزاد ہوئی ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ برما نے مزید سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ، جس بات کی ہمت افزائی لازم ہے۔
اُن کے بقول، تاہم وہ نہیں سمجھتے کہ کسی کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ برما کہاں کھڑا ہے اور اُسے کہاں جانا ہے۔’ دوسری طرف، اگر ہم اُس وقت کا انتظار کرتے کہ وہاں کب مثالی جمہوریت نافذ ہوتی ہے، تو مجھے خدشہ ہے کہ اِس میں طویل عرصہ لگ جاتا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے دورے کا مقصد وہاں کی جانےوالی پیش رفت کی نشاندہی کرنا اور اُن اقدامات کا ذکر اذکار کرناتھا جو آئندہ برما کو لینے ہوں گے۔
مسٹر اوباما نے یہ بات تھائی وزیر اعظم ینگ لک شِنواترا کے ہمراہ ایک اخباری کانفرنس کے دوران کہی۔
تقریبا ًدو ہفتے قبل انتخاب جیتنے کےبعد اپنے پہلے غیر ملکی دورےپر اُنھوں نےایشیائی ملک تھائی لینڈ میں قیام کیا، جہاں سے وہ برما اور کمبوڈیا کے دورے پر روانہ ہوں گے۔
دورے سےاِس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ مسٹر اوباما ایشیا کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ایسے میں جب وہ دوسری چار سالہ مدت صدارت کے دوران امریکی معیشت کو مضبوط کرنے پر دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، وہ ایشیا کے دورے پر روانہ ہوئے ہیں۔ اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کا آئندہ کا محور ایشیا ہوگا۔
مسٹر اوباما پیر کو پربا پہنچیں گے۔ وہ اِس ملک کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر ہوں گے، جوعشروں سے جاری رہے والی سخت فوجی حکمرانی کے دور سے باہر نکل آیا ہے۔ برما کی حکومت نے حالیہ عرصے کے دوران جمہوری اصلاحات شروع کی ہیں، تاہم انسانی حقوق سے وابستہ کچھ گروپوں نے انتباہ کیا ہے کہ ابھی تک یہ آزاد ملک کا درجہ نہیں رکھتا۔
صدر اوباما برما کے صدر تھین سائن اور ملک کی جمہوریت کی سرگرم کارکن آن سانگ سوچی سے ملاقات کریں گے۔ سوچی تقریباً دو عشروں تی قید یا گھر میں نظر بند رہنے کے بعد، 2010ء سے آزاد ہوئی ہیں۔