امریکہ کے صدر براک اوباما نے کیوبا کے صدر راؤل کاسترو کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ رابطہ شمالی و جنوبی امریکی ملکوں کے سربراہان کے دو روزہ اجلاس سے قبل ہوا ہے جو جمعے کی شام کو پاناما سٹی میں شروع ہورہا ہے۔
کیوبا تاریخ میں پہلی بار خطے کے ملکوں کے اس اہم سربراہی اجلاس میں شریک ہوگا اور 1959ء کے کیوبن انقلاب کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ امریکی اور کیوبن صدر کسی بین الاقوامی فورم میں ایک ہی وقت پر اسٹیج پہ موجود ہوں گے۔
'وہائٹ ہاؤس' کے ایک اعلیٰ اہلکار نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت بدھ کو صدر اوباما کے جمائیکا اور پاناما کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل ہوئی تھی۔
کیوبا کے سرکاری خبر رساں ادارے 'نیشنل انفارمیشن ایجنسی' کے نائب سربراہ جارج لےگانوا نے بھی صدر اوباما اور صدر کاسترو کے درمیان ٹیلی فون پر رابطے کی تصدیق کی ہے۔
صدر براک اوباما 'سمٹ آف دی امریکاز' میں شرکت کے لیے جمعرات کی شب جنوبی امریکہ کے ملک پاناما کے دارالحکومت پہنچ گئے ہیں۔
اس سے قبل صدر اوباما نے جمائیکا کا ایک روزہ دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے اپنے خطاب میں کیوبا کو ان ریاستوں کی فہرست سے نکالنے کا عندیہ دیا تھا جنہیں امریکہ "دہشت گردی کی معاون" قرار دیتا ہے۔
صدر اوباما نے کہا تھا کہ محکمۂ خارجہ نے کیوبا کو دہشت گردوں کی مدد کرنے والی ریاستوں کی فہرست سے نکالنے کے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ 'وہائٹ ہاؤس' بھیج دی ہے جسے ضابطے کی کارروائی کے تحت زیرِ غور لایا جائے گا۔
کیوبا کے نکلنے کے بعد اس فہرست میں شام، ایران اور سوڈان رہ جائیں گے جن کی حکومتوں پر امریکہ دہشت گردوں کی معاونت اور سرپرستی کرنے کے الزامات عائد کرتا ہے۔
اس سے قبل امریکی محکمۂ خارجہ جان کیری اور ان کے کیوبن ہم منصب برونو روڈریگز نے جمعرات کی شب پاناما سٹی میں ملاقات کی تھی جو 57 سال بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات تھی۔
امریکی حکام کے مطابق دونوں ملکوں کے اعلیٰ ترین سفارت کاروں کے درمیان یہ ملاقات دو گھنٹے سے زائد وقت جاری رہی، جس میں امریکی حکام کے مطابق "مفصل اور تعمیری گفتگو اور کئی معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے"۔