صدر اوباما نے اپنے یورپ کے ہفتہ بھر کے دورے میں نہ تو کسی بڑے سمجھوتے پر دستخط کیے اور نہ ہی کسی اہم پالیسی کا اعلان کیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے اس دورے کا بنیادی مقصد حاصل کر لیا، یعنی یورپ کے لوگوں کو یہ اطمینان دلانا کہ امریکہ کے لیئے بحر اوقیانوس کے ملکوں کے ساتھ اتحاد بدستور اہم ہے۔
مسٹر اوباما کے عہد صدارت میں اب تک ان کی بیشتر توجہ عراق اور افغانستان کی جنگوں، مشرق ِ وسطیٰ کے ہنگاموں، ایشیا کے ملکوں کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں اور ملک کے اندر کے بحرانوں پر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، اوباما انتظامیہ نے اعلان کر دیا ہے کہ اس کی نظر میں G20 کے ملکوں کا اقتصادی فورم، جس میں دنیا کے ہر برِ اعظم کے ملک شامل ہیں، ، G-8کے ملکوں کے گروپ سے زیادہ اہم ہے جس میں بیشتر توجہ یورپ کے ملکوں پر مرکوز رہی ہے۔
مسٹر اوباما نے اپنے سفارتکاری کے مشن کا آغاز آئر لینڈ سے کیا۔ یہاں وہ اس ملک کے لیڈروں سے ملے، اور اپنے آبائی قصبے Moneygall میں انھوں نے لاکھوں لوگوں کے سامنے اعلان کیا کہ ان کی رگوں میں آئر لینڈ کے لوگوں کا خون دوڑ رہا ہے ۔ انھوں نے آئر لینڈ کی مشکلات سے دو چارمعیشت کے لیئے کسی مالی امداد کا اعلان تو نہیں کیا لیکن اپنی اخلاقی مدد کا یقین دلایا۔
اپنے دورے کی اگلی منزل میں صدر اوباما برطانیہ پہنچے ۔ انیسویں صدی کے بعد سے امریکہ اور برطانیہ ایک دوسرے کے قریب ترین اتحادی رہے ہیں، اور وہ دنیا کے دو سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔
برطانیہ میں صدر کی آمد کو سرکاری دورے کا اعزاز دیا گیا اور انہیں 900 سالہ قدیم ویسٹ منسٹر ہال میں برطانوی پارلیمینٹ کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ یہاں مسٹر اوباما نے اس دلیل کو رد کر دیا کہ چین، بھارت اور برازیل کی ابھرتی ہوئی معیشتیں، امریکہ اور برطانیہ کی جگہ لے لیں گی۔ انھوں نے کہا’’یہ دلیل غلط ہے ۔ یہی تو وہ وقت ہے جب ہم دنیا کی قیادت کریں گے۔ امریکہ اور برطانیہ اور ہمارے جمہوری اتحادیوں نے ایک ایسی دنیا کی تشکیل کی جس میں نئے ملک پھل پھول سکتے ہیں اور افراد ترقی کر سکتے ہیں۔ اور اب جب کہ مزید ملک عالمی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں، ہمارا اتحاد اس صدی کے لیئے جو زیادہ پُر امن، زیادہ خوشحال، اور زیادہ منصفانہ ہے، نا گزیر رہے گا۔‘‘
صدر اور برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے لیبیا سمیت بہت سے مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کیمرون لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششوں میں زیادہ پُر جوش ہیں جبکہ مسٹر اوباما محتاط رویہ اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔
ڈیوویلے، فرانس میں صدر اوباما نے G8 کے ملکوں کے اقتصادی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی ۔ یہاں انھوں نے مصر، تیونس، اور دوسر ے عرب ملکوں کے لیے جہاں جمہوری تحریکیں چل رہی ہیں، مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بڑے صنعتی ملکوں کے اس گروپ نے کوئی ٹھوس وعدہ تو نہیں کیا، لیکن یہ کہا کہ مصر اور تیونس کو اصلاحات کے منصوبوں کے لیئے 20 ارب ڈالر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
ڈیوویلے میں مسٹر اوباما روس کے صدر دمتری میدویدف کو اس نکتے پر قائل کرنے میں ناکام رہے کہ امریکہ کے مجوزہ میزائل شکن نظام کا ہدف روسی میزائل نہیں ہوں گے۔ تاہم مسٹر میدویدف نے اس بات پر اتفاق ضرور کیا کہ وہ معمرقذافی کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششوں کی حمایت کریں گے ، اور لیبیا لے لیڈر کو مزید الگ تھلگ کرنے میں مدد دیں گے۔
وارسا میں مسٹر اوباما نے پولینڈ کے لیڈروں کو یقین دلایا کہ روس کے ساتھ امریکہ کے بہتر تعلقات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیٹو اتحاد کے رکن ملک، پولینڈ کی حفاظت کے لیئے امریکہ کے عزم میں کوئی کمی آئی ہے ۔ انھوں نے کہا’’ہماری خواہش ہے کہ اس علاقے میں ایسا ماحول قائم ہو جائے جس میں امن اور خوشحالی یقینی ہو جائے ۔ اس سے صرف اس علاقے کو ہی فائدہ نہیں ہو گا، یہ امریکہ کے لیئے بھی سود مند ہوگا ۔ اور ہم پولینڈ کی حفاظت کے لیئے ہر وقت موجود ہوں گے۔‘‘
اور انھوں نے اپنے دورے کے ہر اسٹاپ پر یورپیوں کو یاد دلایا کہ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں، نیٹو اتحاد کو بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل ہے ۔