متنازعہ اسلام مخالف فلم اور اُس کے ردِ عمل میں ہونے والاتشدد امریکی صدر براک اوباما کے جنرل اسمبلی سے خطاب کا مرکزی خیال رہا، جِس میں اُنھوں نے ایک طرف اِس فلم پر امریکی حکومت کے موٴقف کو واضح کیا اور دوسری طرف یہ وضاحت کی کہ امریکی قوانین کے مطابق اس فلم پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا سکتی۔ اِس کے ساتھ ساتھ، امریکی صدر نے اِس تشدّد کی پُر زور مذمّت کی جِس کے نتیجے میں ایک امریکی سفیر سمیت دنیا بھر میں کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
صدر اوباما نے اپنے خطاب کا آغاز لیبیا میں ہلاک ہونے والے امریکی سفیر کرس سٹیونز کی زندگی کی کہانی سے کیا اور کہا کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جو دنیا بھر کے لوگوں کے لیے جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین رکھتے تھے اور مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں سے احترام سے پیش آتے تھے۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ سٹیونز نے ایسے وقت لیبیا میں سفارت سنبھالی جب ملک تشدد اور تبدیلی کی لہر کی لپیٹ میں تھا اور ایسے میں اُنھوں نے ایک نئی جمہوری حکومت کے آغاز میں مدد دی۔
امریکی صدر کے مطابق سٹیونز نہ صرف بہترین امریکی اقدار کی ترجمانی کرتے تھے، بلکہ اقوام متحدہ کے اقدار کے بھی ترجمان تھے۔ صدر اوباما نے امریکی سفارت خانے پر اُس حملے کو جس میں مسٹر سٹیونز ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ کی اقدار پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ امریکہ ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچا کر چھوڑے گا۔
صدر اوباما نے متنازعہ فلم کو قابل نفرت قرار دیا اور اپنا یہ موٴقف دہرایا کہ اِس فلم سے امریکی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ’’یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ امریکی کی بے عزّتی ہے‘‘۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ امریکہ میں ہر رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں اور لاکھوں مسلمان امریکہ کے شہری ہیں جن کی اس فلم سے دل آزاری ہوئی ہے۔
اِس کے باوجود اُن کا کہنا تھا کہ اِس فلم پر امریکی قوانین کے تحت پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ صدر اوباما کے مطابق اگرچہ امریکہ کی زیادہ تر آبادی عیسائی ہے لیکن اگر کوئی عیسائیت کے خلاف بھی توہین آمیز بات کرے تو اس پر بھی پابندی نہیں لگائی جاتی۔
امریکی قوانین کی مزید وضاحت کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی آزادیِ اظہار کے قوانین کی بنیاد اس یقین میں ہے کہ ان پر پابندی لگائی گئی تو ایسا عمل آگے چل کر یہ اقلیتوں یا سیاسی مخالفین کو دبانے کا آلہٴ بن سکتا ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں جب کوئی بھی شخص ایک سیل فون سے دنیا بھر میں قابلِ مذمت خیالات پھیلا سکتا ہے، معلومات کو روکنا ممکن نہیں۔ لیکن کسی بھی صورتحال کا ردِ عمل انسانوں کے بس میں ہے۔ چنانچہ، قابلِ نفرت خیالات کا جواب اُنہیں دبانے میں نہیں بلکہ اُن کے مد مقابل بہتر خیالات کا اظہار کرنے اور ایسی اقدار دنیا میں پھیلانے میں ہے جو باہمی احترام پر مبنی ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر نے پر زور انداز میں کہا کہ کسی بھی قسم کے الفاظ کو معصوم لوگوں کی جان لینے کا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا اور کسی بھی طرح کی ویڈیو کی بنا پر یہ جائز نہیں کہ ایک سفارت خانے پر یا دیگر املاک پر حملہ کر دیا جائے اور انہیں جلا دیا جائے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایسی سیاست جس میں مشرق کو مغرب اور مسلمانوں کو عیسائیوں، ہندوؤں اور یہودیوں سے لڑایا جائے، دنیا میں نہ تو آزادی لا سکتی ہے، نہ کسی کا پیٹ بھرنے میں مدد دے سکتی ہے، اور نہ ہی بچوں کی تعلیم میں مدد کر سکتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس لیے اُنھوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں پر زور دیا کہ تشدد اور عدم برداشت کے خلاف بھرپور انداز میں آواز اٹھائیں۔
صدر اوباما نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ نے عرب دنیا میں آنے والی تبدیلی کی حمایت کی اور تیونس سے لے کر لیبیا تک اور مصر سے لے کر یمن تک عوام کی خواہشات کا ساتھ دیا اور شام میں بھی عوام کی خواہشات کے عین مطابق صدر بشار الاسد کی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ان تحریکوں کی حمایت اس لیے کرتا ہے کہ اس کے خیال میں آزادی اور خود مختاری امریکی یا مغربی اقدار نہیں بلکہ انسانی اقدار ہیں۔
البتہ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں کے بحران سے یہ یاد دہانی ہوتی ہے کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے کا نام نہیں بلکہ اصل جمہوریت میں کسی شخص کو اس کے خیالات کی بنیاد پر جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا، جہاں لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے اور قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔
ایک دوسرے اہم معاملے یعنی ایران کے ایٹمی پروگرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر اوباما نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ اس مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے اور ابھی بھی اس کے لیے وقت باقی ہے لیکن ’’یہ وقت لا محدود نہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران نے ایٹمی ہتھیار بنائے تو نہ صرف اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا بلکہ خطّے میں ایٹمی دوڑ شروع ہو جائے گی، دنیا کی معیشت بحران کا شکار ہو جائے گی اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کا معاہدہ بے کار ہو جائے گا۔ اس لیے امریکہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
صدر اوباما نے اپنے خطاب کا آغاز لیبیا میں ہلاک ہونے والے امریکی سفیر کرس سٹیونز کی زندگی کی کہانی سے کیا اور کہا کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جو دنیا بھر کے لوگوں کے لیے جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین رکھتے تھے اور مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں سے احترام سے پیش آتے تھے۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ سٹیونز نے ایسے وقت لیبیا میں سفارت سنبھالی جب ملک تشدد اور تبدیلی کی لہر کی لپیٹ میں تھا اور ایسے میں اُنھوں نے ایک نئی جمہوری حکومت کے آغاز میں مدد دی۔
امریکی صدر کے مطابق سٹیونز نہ صرف بہترین امریکی اقدار کی ترجمانی کرتے تھے، بلکہ اقوام متحدہ کے اقدار کے بھی ترجمان تھے۔ صدر اوباما نے امریکی سفارت خانے پر اُس حملے کو جس میں مسٹر سٹیونز ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ کی اقدار پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ امریکہ ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچا کر چھوڑے گا۔
صدر اوباما نے متنازعہ فلم کو قابل نفرت قرار دیا اور اپنا یہ موٴقف دہرایا کہ اِس فلم سے امریکی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ’’یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ امریکی کی بے عزّتی ہے‘‘۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ امریکہ میں ہر رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں اور لاکھوں مسلمان امریکہ کے شہری ہیں جن کی اس فلم سے دل آزاری ہوئی ہے۔
اِس کے باوجود اُن کا کہنا تھا کہ اِس فلم پر امریکی قوانین کے تحت پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ صدر اوباما کے مطابق اگرچہ امریکہ کی زیادہ تر آبادی عیسائی ہے لیکن اگر کوئی عیسائیت کے خلاف بھی توہین آمیز بات کرے تو اس پر بھی پابندی نہیں لگائی جاتی۔
امریکی قوانین کی مزید وضاحت کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی آزادیِ اظہار کے قوانین کی بنیاد اس یقین میں ہے کہ ان پر پابندی لگائی گئی تو ایسا عمل آگے چل کر یہ اقلیتوں یا سیاسی مخالفین کو دبانے کا آلہٴ بن سکتا ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں جب کوئی بھی شخص ایک سیل فون سے دنیا بھر میں قابلِ مذمت خیالات پھیلا سکتا ہے، معلومات کو روکنا ممکن نہیں۔ لیکن کسی بھی صورتحال کا ردِ عمل انسانوں کے بس میں ہے۔ چنانچہ، قابلِ نفرت خیالات کا جواب اُنہیں دبانے میں نہیں بلکہ اُن کے مد مقابل بہتر خیالات کا اظہار کرنے اور ایسی اقدار دنیا میں پھیلانے میں ہے جو باہمی احترام پر مبنی ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر نے پر زور انداز میں کہا کہ کسی بھی قسم کے الفاظ کو معصوم لوگوں کی جان لینے کا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا اور کسی بھی طرح کی ویڈیو کی بنا پر یہ جائز نہیں کہ ایک سفارت خانے پر یا دیگر املاک پر حملہ کر دیا جائے اور انہیں جلا دیا جائے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایسی سیاست جس میں مشرق کو مغرب اور مسلمانوں کو عیسائیوں، ہندوؤں اور یہودیوں سے لڑایا جائے، دنیا میں نہ تو آزادی لا سکتی ہے، نہ کسی کا پیٹ بھرنے میں مدد دے سکتی ہے، اور نہ ہی بچوں کی تعلیم میں مدد کر سکتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس لیے اُنھوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں پر زور دیا کہ تشدد اور عدم برداشت کے خلاف بھرپور انداز میں آواز اٹھائیں۔
صدر اوباما نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ نے عرب دنیا میں آنے والی تبدیلی کی حمایت کی اور تیونس سے لے کر لیبیا تک اور مصر سے لے کر یمن تک عوام کی خواہشات کا ساتھ دیا اور شام میں بھی عوام کی خواہشات کے عین مطابق صدر بشار الاسد کی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ان تحریکوں کی حمایت اس لیے کرتا ہے کہ اس کے خیال میں آزادی اور خود مختاری امریکی یا مغربی اقدار نہیں بلکہ انسانی اقدار ہیں۔
البتہ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں کے بحران سے یہ یاد دہانی ہوتی ہے کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے کا نام نہیں بلکہ اصل جمہوریت میں کسی شخص کو اس کے خیالات کی بنیاد پر جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا، جہاں لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے اور قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔
ایک دوسرے اہم معاملے یعنی ایران کے ایٹمی پروگرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر اوباما نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ اس مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے اور ابھی بھی اس کے لیے وقت باقی ہے لیکن ’’یہ وقت لا محدود نہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران نے ایٹمی ہتھیار بنائے تو نہ صرف اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا بلکہ خطّے میں ایٹمی دوڑ شروع ہو جائے گی، دنیا کی معیشت بحران کا شکار ہو جائے گی اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کا معاہدہ بے کار ہو جائے گا۔ اس لیے امریکہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔