ایک نئی عام جائزہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے باغیوں سے نبردآزما ہونے کی صدر براک اوباما کی کوششوں پر عام امریکی مطمئن نہیں لگتا، جِن سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ اس اقدام کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ دیگر کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے خطے میں امریکی فوج کی واپسی کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس اور ’جے ایف کے‘ کے اِس سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ وسط اکتوبر میں کی اس جائزہ رپورٹ میں 10 میں سے چھ سے زیادہ لوگ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے صدر اوباما کے اقدام کو رد کرتے ہیں۔
ایک برس قبل، اُنھوں نے اِن ہی دونوں ملکوں میں داعش کے ٹھکانوں پر بڑی سطح کی فضائی کارروائی کا اختیار دیا تھا، جب کہ حال ہی میں جب یہ سروے مکمل کیا گیا، اُنھوں نے ’اسپیشل آپریشنز فورسز‘ کے 50 فوجیوں کو شام بھیجے کے احکامات دیے ہیں، تاکہ باغیوں سے لڑائی میں کُرد اور عرب افواج کو مشاورت فراہم کی جا سکے۔
لیکن، داعش کے خلاف اُن کی کارروائی کے حق میں حمایت کم ہوتی جا رہی ہے، اور اِس وقت یہ 38 فی صد کے درجے پر ہے، جب کہ ستمبر 2014ء میں اس کے حق اور مخالفت میں حمایت برابر۔برابر تھی۔
عراق اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کے ایک عشرے بعد، امریکی سربراہ نے امریکہ کو میدانِ جنگ سے باہر نکالنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن، اب جب کہ اُن کی میعادِ صدارت میں 15 ماہ رہ گئے ہیں، امکان یہی ہے کہ جب وہ جنوری 2017ء میں عہدہ چھوڑیں گے، اُس وقت امریکہ عراق، شام اور افغانستان میں لڑ رہا ہوگا۔
سنہ 2001ء میں امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی، تاکہ امریکہ کے خلاف دہشت گرد حملوں کے ایک ماہ کے اندر اندر القاعدہ کے ٹھکانوں پر حملہ کیا جائے، جن حملوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔ اوباما نے زیادہ تر فوج کو واپس بلا لیا ہے، لیکن، اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے کے اندازے کے مقابلے میں وہ زیادہ فوجیں تعینات رکھیں گے۔
اے پی کی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 71 فی صد امریکی سمجھتے ہیں کہ تاریخ افغانستان میں امریکی کارروائی کو کامیابی سے زیادہ ناکامی سے تعبیر کرے گی، جب کہ 26 فی صد کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام کامیاب رہا ہے۔
پارلیمان میں صدر کے ناقدین، جن میں زیادہ تر کا تعلق ریپبلیکن قانون سازوں پر متشمل ہے، جن میں چند ایک اِسی جماعت کے صدارتی نامزدگی کے امیدوار ہیں جو اُن کی جگہ لینے کے خواہاں ہیں، کہتے ہیں کی داعش کے خلاف اُن کا اقدام بہت ہی کمزور ہے۔
دیگر ناقدین جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، ویسے وہ کئی ایک خارجہ اور داخلی امور پر صدر کے حامی ہیں، کہتے ہیں کہ صدر نے خطے میں طویل امریکی فوجی مداخلت ختم کرنے کے وعدے کو پورا نہیں کیا۔
یوں لگتا ہے کہ داعش کے خلاف اوباما کے اقدام کا معاملہ اگلے سال کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ہونے والے مباحثے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، جب کہ ریپبلیکن پارٹی کے کچھ صدارتی نامزدگی کے امیدوار خطے کی جانب مزید امریکی فوجیں بھیجنے کے حق میں ہیں، جس مؤقف کو کبھی اوباما رد کیا کرتے تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کی خواہشمند اور سابق وزیر خارجہ، ہیلری کلنٹن امریکہ کی جانب سے شام میں ’نو فلائی زون‘ کے قیام کا مطالبہ کرتی ہیں، جس کی اوباما حمایت نہیں کرتے۔