واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اُن کے قومی سلامتی کے مشیر ’کئی طرح کے آپشنز‘ تیار کر رہے ہیں، تاکہ عراق کو امریکی امداد فراہم کی جائے جنھیں ’دہشت گردوں‘ کے حملوں کا سامنا ہے۔
جمعے کے دِن وائٹ ہاؤس سے خطاب میں، صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کے اقدام ’کچھ ہی دِنوں کے اندر اندر‘ واضح ہوجائیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی فوجی عراق نہیں بھیجے جائیں گے۔
صدر نے کہا کہ شدت پسند، جنھوں نے عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ جما لیا ہے، عراقی حکومت اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے خطرہ ہیں، ایسے میں جب یہ امریکی مفادات کے لیے بھی ایک متحرک دھمکی کی مانند ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ امریکی فوجوں نے ’غیر معمولی قربانیاں‘ دی ہیں، جن کا مقصد عراقیوں کو یہ موقع دینا تھا کہ وہ اپنے مستبقل کو سنوار سکیں، لیکن اکثرو بیشتر عراق کے منقسم رہنما اپنی ذاتی بداعتمادی اور فرقہ وارانہ سوچ پر حاوی آنے میں ناکام رہے ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ عراق کے لیے امریکی امداد کے ساتھ ساتھ عراق کے رہنماؤں کی طرف سے ’سنجیدہ اور سچی‘ کوششیں درکار ہیں، تاکہ وہ اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کام کرسکیں اور اپنے ملک کی سلامتی افواج میں بہتری لاسکیں۔
اُنھوں نے کہا کہ سیاسی سطح پر کسی کوشش کی غیر موجودگی میں، کسی قلیل مدتی فوجی امداد کا معاملہ کامیاب نہیں ہوگا۔
صدر نے جاری شدت پسندی کو ’نیند سے بیدار ہونے کی گھنٹی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بالآخر یہ عراق پر ہی منحصر ہے کہ بحیثیت ایک خودمختار ملک، وہ اپنے مسائل خود حل کرے۔
اسلامی شدت پسندوں نے عراق کے مزید علاقوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں نے جمعرات کو جوالہ اور سعدیہ کے قصبوں کو فتح کر لیا، جو نسلی طور پر منقسم مشرقی صوبہٴ دیالہ میں واقع ہیں۔
’دولت الاسلامیہ عراق والشام‘ (آئی ایس آئی ایل) نامی تنظیم اور بحیرہٴروم کے دھڑوں پر مشتمل شدت پسند نے شمالی عراق کے زیادہ تر علاقے کو فتح کر لیا ہے اور وہ دارالحکومت بغداد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔
جمعے کے روز اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے کی سربراہ، نِوی پلئی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ عالمی ادارے کو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ حالیہ دِنوں کے دوران میں عراق میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 1000تک جا پہنچی ہے۔ پلئی کے دفتر نے یہ بھی کہا ہے کہ شدت پسند کسی بھی شخص کو مار دیتے ہیں جس کا کسی طرح سے بھی عراقی حکومت سے کوئی تعلق ثابت ہوتا ہو۔
صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عراق کی فوجیں شدت پسندوں کے حربوں اور پیش قدمی کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئی ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اپنی فوج عراق بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کی عراقی وزیر اعظم نوری المالکی ملک کو متحد کرنے اور دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں۔
وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ لان سےعراق کے بارے میں اپنے ایک بیان سے قبل، صدر اوباما نے اپنے اعلیٰ مشیروں سے ملاقات کی۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ امریکہ کا اس بات سے مفاد وابستہ ہے کہ عراق اور شام میں شر اٹھانے والی شدت پسندی کسی طور پر بھی کامیاب نہ ہو، کیونکہ اس سے بہتر انسانی اقدار کو خطرہ لاحق ہے۔
اُنھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جہادی عسکریت پسندی کے بڑھنے سے عراق میں فرقہ وارانہ سنی شیعہ فسادات کو فروغ ملے گا اور عراق معاشرتی تباہی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ دولت الاسلامیہ عراق والشام‘ نامی تنظیم ’آئی ایس آئی ایل) کے شدت پسند ’بہت بڑی تعداد میں نہیں‘، لیکن اُن کی شدت پسندی عراق کے لیے خطرے اور بربادی کا باعث بن سکتی ہے؛ اور یہ کہ اُن کے نظریات اور تشدد کے حربے امریکی مفادات کے لیے بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی ’نیشنل سکیورٹی کونسل‘ کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ وہ ’تمام آپشنز پر‘ غور کرے۔ تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ، بقول اُن کے، ’ہم اپنی لڑاکا فوج عراق نہیں بھیجیں گے‘۔
بقول اُن کے، ’بالآخر یہ خود عراقیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مسائل سے کس طرح نبردآزما ہوتے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ کسی یقین دہانی کے بغیر امریکہ کسی طور پربھی کسی فوجی کارروائی میں ملوث نہیں ہوگا۔
بقول اُن کے، ضرورت اِس بات کی ہے کہ عراقی حکومت ملک کو متحد کرنے اور فرقہ وارانہ تناؤ میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرے۔
اوباما انتظامیہ کو سخت تشویش لاحق رہی ہے کہ اس سے قبل، اِسی سال، فلوجہ کا شہر ’ آئی ایس آئی ایل‘ کے ہاتھوں فتح ہوچکا تھا؛ جب کہ اِس ہفتے، یہ شدت پسند موصل، تکریت، بیجی اور گرد و نواح کے قصبہ جات سے عراقی فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اِس سے قبل، صدر براک اوباما نے کہا کہ وہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے خلاف عراق کی حکومت کی مدد کے لیے تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاوس میں صحافیوں سے گفتگو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اس شدت پسندی کو روکنے کے لیے ڈرون حملوں یا کسی اور کارروائی پر غور کر رہا ہے تو صدر کا کہنا تھا کہ ’میں کسی بھی امکان کو رد نہیں کرتا‘۔
وائٹ ہاوٴس میں آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ’جہادی عراق میں اپنے قدم نہ جما سکیں اور نہ شام میں۔‘
عراق میں دولت الاسلامیہ عراق والشام نامی تنظیم کے شدت پسندوں نے رواں ہفتے ملک کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد یہ دھمکی دی ہے کہ وہ کربلا کے علاوہ بغداد پر بھی قبضہ کریں گے۔
جمعے کے دِن وائٹ ہاؤس سے خطاب میں، صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کے اقدام ’کچھ ہی دِنوں کے اندر اندر‘ واضح ہوجائیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی فوجی عراق نہیں بھیجے جائیں گے۔
صدر نے کہا کہ شدت پسند، جنھوں نے عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ جما لیا ہے، عراقی حکومت اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے خطرہ ہیں، ایسے میں جب یہ امریکی مفادات کے لیے بھی ایک متحرک دھمکی کی مانند ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ امریکی فوجوں نے ’غیر معمولی قربانیاں‘ دی ہیں، جن کا مقصد عراقیوں کو یہ موقع دینا تھا کہ وہ اپنے مستبقل کو سنوار سکیں، لیکن اکثرو بیشتر عراق کے منقسم رہنما اپنی ذاتی بداعتمادی اور فرقہ وارانہ سوچ پر حاوی آنے میں ناکام رہے ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ عراق کے لیے امریکی امداد کے ساتھ ساتھ عراق کے رہنماؤں کی طرف سے ’سنجیدہ اور سچی‘ کوششیں درکار ہیں، تاکہ وہ اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کام کرسکیں اور اپنے ملک کی سلامتی افواج میں بہتری لاسکیں۔
اُنھوں نے کہا کہ سیاسی سطح پر کسی کوشش کی غیر موجودگی میں، کسی قلیل مدتی فوجی امداد کا معاملہ کامیاب نہیں ہوگا۔
صدر نے جاری شدت پسندی کو ’نیند سے بیدار ہونے کی گھنٹی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بالآخر یہ عراق پر ہی منحصر ہے کہ بحیثیت ایک خودمختار ملک، وہ اپنے مسائل خود حل کرے۔
اسلامی شدت پسندوں نے عراق کے مزید علاقوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں نے جمعرات کو جوالہ اور سعدیہ کے قصبوں کو فتح کر لیا، جو نسلی طور پر منقسم مشرقی صوبہٴ دیالہ میں واقع ہیں۔
’دولت الاسلامیہ عراق والشام‘ (آئی ایس آئی ایل) نامی تنظیم اور بحیرہٴروم کے دھڑوں پر مشتمل شدت پسند نے شمالی عراق کے زیادہ تر علاقے کو فتح کر لیا ہے اور وہ دارالحکومت بغداد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔
جمعے کے روز اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے کی سربراہ، نِوی پلئی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ عالمی ادارے کو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ حالیہ دِنوں کے دوران میں عراق میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 1000تک جا پہنچی ہے۔ پلئی کے دفتر نے یہ بھی کہا ہے کہ شدت پسند کسی بھی شخص کو مار دیتے ہیں جس کا کسی طرح سے بھی عراقی حکومت سے کوئی تعلق ثابت ہوتا ہو۔
صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عراق کی فوجیں شدت پسندوں کے حربوں اور پیش قدمی کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئی ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اپنی فوج عراق بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کی عراقی وزیر اعظم نوری المالکی ملک کو متحد کرنے اور دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں۔
وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ لان سےعراق کے بارے میں اپنے ایک بیان سے قبل، صدر اوباما نے اپنے اعلیٰ مشیروں سے ملاقات کی۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ امریکہ کا اس بات سے مفاد وابستہ ہے کہ عراق اور شام میں شر اٹھانے والی شدت پسندی کسی طور پر بھی کامیاب نہ ہو، کیونکہ اس سے بہتر انسانی اقدار کو خطرہ لاحق ہے۔
اُنھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جہادی عسکریت پسندی کے بڑھنے سے عراق میں فرقہ وارانہ سنی شیعہ فسادات کو فروغ ملے گا اور عراق معاشرتی تباہی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ دولت الاسلامیہ عراق والشام‘ نامی تنظیم ’آئی ایس آئی ایل) کے شدت پسند ’بہت بڑی تعداد میں نہیں‘، لیکن اُن کی شدت پسندی عراق کے لیے خطرے اور بربادی کا باعث بن سکتی ہے؛ اور یہ کہ اُن کے نظریات اور تشدد کے حربے امریکی مفادات کے لیے بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی ’نیشنل سکیورٹی کونسل‘ کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ وہ ’تمام آپشنز پر‘ غور کرے۔ تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ، بقول اُن کے، ’ہم اپنی لڑاکا فوج عراق نہیں بھیجیں گے‘۔
بقول اُن کے، ’بالآخر یہ خود عراقیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مسائل سے کس طرح نبردآزما ہوتے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ کسی یقین دہانی کے بغیر امریکہ کسی طور پربھی کسی فوجی کارروائی میں ملوث نہیں ہوگا۔
بقول اُن کے، ضرورت اِس بات کی ہے کہ عراقی حکومت ملک کو متحد کرنے اور فرقہ وارانہ تناؤ میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرے۔
اوباما انتظامیہ کو سخت تشویش لاحق رہی ہے کہ اس سے قبل، اِسی سال، فلوجہ کا شہر ’ آئی ایس آئی ایل‘ کے ہاتھوں فتح ہوچکا تھا؛ جب کہ اِس ہفتے، یہ شدت پسند موصل، تکریت، بیجی اور گرد و نواح کے قصبہ جات سے عراقی فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اِس سے قبل، صدر براک اوباما نے کہا کہ وہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے خلاف عراق کی حکومت کی مدد کے لیے تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاوس میں صحافیوں سے گفتگو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اس شدت پسندی کو روکنے کے لیے ڈرون حملوں یا کسی اور کارروائی پر غور کر رہا ہے تو صدر کا کہنا تھا کہ ’میں کسی بھی امکان کو رد نہیں کرتا‘۔
وائٹ ہاوٴس میں آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ’جہادی عراق میں اپنے قدم نہ جما سکیں اور نہ شام میں۔‘
عراق میں دولت الاسلامیہ عراق والشام نامی تنظیم کے شدت پسندوں نے رواں ہفتے ملک کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد یہ دھمکی دی ہے کہ وہ کربلا کے علاوہ بغداد پر بھی قبضہ کریں گے۔