امریکہ کے صدر براک اوباما ملک کی معاشی صورتِ حال میں بہتری اور بےروزگاری کے خاتمے کی غرض سے اپنی انتظامیہ کے تجویز کردہ 447 ارب ڈالرز مالیت کے مسودہ قانون کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے مسلسل دوسرے روز بھی عوامی رابطہ مہم پر ہیں۔
مجوزہ بِل کی حمایت کے حصول کے لیے سرگرم امریکی صدر منگل کو بس کے ذریعے مسلسل دوسرے روز بھی جنوبی ریاست شمالی کیرولائنا کا دورہ جاری رکھیں گے جہاں سے وہ بعد ازاں پڑوسی ریاست ورجینیا جائیں گے۔ اپنے اس سفر کے دوران صدر اوباما راستے میں پڑنے والی مختلف آبادیوں میں رک کر وہاں کے مکینوں کو مجوزہ قانون کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کریں گے۔
واضح رہے کہ صدر اوباما نے 2008ء کے صدارتی انتخاب میں مذکورہ دونوں ریاستوں سے کامیابی حاصل کی تھی اور آئندہ برس ان کے دوبارہ منتخب ہونے کے لیے بھی ان ریاستوں میں کامیابی کو ضروری قرار دیا جارہا ہے۔
حالیہ تین روزہ دورے کے پہلے دن صدر اوباما نے حزبِ مخالف کے ری پبلکن قانون سازوں کو آڑے ہاتھوں لیا جو ان کے بقول مجوزہ قانون کی منظوری کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔
پیر کو شمالی کیرولائنا کے شہر ایش ویل میں خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کانگریس کے ری پبلکن اراکین پر پھبتی کسی کہ "شاید انہیں مکمل مسودہ قانون کو سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے لہذا ہم ان کی آسانی کے لیے اس قانون کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پیش کر رہے ہیں تاکہ یہ انہیں ہضم ہوسکے"۔
صدر اوباما نے رائے دہندگان کا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری کو روک کر ری پبلکنز نے عوام کی خواہشات کا انکار کیا ہے۔
اس سے قبل پیر کو 2008ء کے انتخابات میں براک اوباما کے مقابلے میں ری پبلکنز کےصدارتی امیدوار جان مک کین نے امریکی صدر پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی "انتخابی رابطہ مہم" کے لیے ٹیکس دہندگان کی رقم استعمال کر رہے ہیں۔
ری پبلکن قانون سازوں نے بےروزگاری کے خاتمے کے لیے صدر کے تجویز کردہ اقدامات کے ردِ عمل میں اپنا علیحدہ 'جابز بِل' پیش کر رکھا ہے۔
دریں اثناء سینیئر ری پبلکن سینیٹر لِنڈسی گراہم نے تجویز پیش کی ہے کہ مسودہ قانون پر موجود اختلافات کو طے کرنے کے لیے ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس کو مل بیٹھنا چاہیے۔