واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے یورپ میں فوجی تربیت اورفوجوں کی موجودگی بڑھانے کے ضمن میں ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں بحیرہ اسود اور بحیرہ بلقان میں بحریہ کی باری باری مزید تعیناتی کا معاملہ شامل ہے۔
یہ اعلان ایسےمیں سامنے آیا جب مسٹر اوباما نے پولینڈ کے صدر برونیسلا کوموروسکی سے ملاقات کی، جو یورپ کے سہ ملکی دورے کے پہلے مرحلے پر پولینڈ میں ہیں، جس دوران متوقع طور پر یوکرین کے بحران پر بات چیت سرفہرست رہے گی۔
صدر نے روس پر بھی زور دیا کہ وہ یوکرین میں اپنی کارروائیاں بند کرے یا پھر مزید معاشی تعزیرات کے لیے تیار ہو جائے۔ اور اُنھوں نے صدر ولادیمیر پیوٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرین کے راہنما، پیٹرو پوروشنکو سے ملاقات کریں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اُنھوں نے پولینڈ کے صدر کے ساتھ یورپ میں نیٹو کی موجودگی میں اضافے کے لیے حمایت کے حصول پر بات کی، جس کی ضرورت مارچ میں روس کی طرف سے کرائمیا کو ضم کیے جانے کے نتیجے میں پیش آئی۔
صدر اوباما کے بقول، ’میں یہاں سے ہی دورے کا آغاز کر رہا ہوں، کیونکہ پولینڈ کی سلامتی کے بارے میں عزم کے ساتھ ساتھ یہ بات وسط اور مشرقی یورپ کے ہمارے اتحادیوں اور خود ہماری اپنی سلامتی کے لیے ازحد ضروری ہے، بلکہ لازمی ہے‘۔
پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونالڈ ٹسک کے ہمراہ ایک اخباری کانفرنس کرتے ہوئے، مسٹر اوباما نے کہا کہ دونوں راہنماؤں نے یوکرین کی طرف سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے کی ضرورت پر گفتگو کی، جس میں اُس کی قدرتی گیس کی رسد کا معاملہ بھی شامل ہے۔
مسٹر اوباما نے مسٹر ٹسک کو پولینڈ کی سلامتی کے حوالے سے امریکہ کی پختہ یقین دہانی کا بھی اعادہ کیا۔
بعدازاں، منگل کے ہی روز دونوں صدور، مسٹر اوباما اور مسٹر کوموروسکی، وسطی اور یورپی ممالک کے لیڈران کے ساتھ وسیع تر اجلاس کی میزبانی کریں گے۔
امریکی راہنما یہ دورہ اُس وقت کر رہے ہیں جب یوکرین کی حکومت روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ بدھ کو پولینڈ سے روانہ ہونے سے قبل، وہ یوکرین کے منتخب صدر پیٹرو پوروشنکو سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
صدر اوباما بدھ اور جمعرات کو برسلز میں امریکی اتحادیوں سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں، جس سے کچھ ہی دِن قبل سربراہان نے روس کی طرف سے اسی ہفتے سوچی میں منعقد کیے جانے والے ’گروپ آف ایٹ‘ کے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
یہ بائیکاٹ مارچ میں روس کی طرف سے کرائمیا کو ضم کرنے کی جوابی کارروائی کے طور پر کیا جا رہا ہے۔
فرانس میں جمعے کے روز، مسٹر اوباما نارمنڈی کے ’اوماہا بیچ‘ پر منعقد کی جانے والی ایک تقریب سے خطاب کریں گے، جو جنگ عظیم دوئم کے دوران نازی افواج کے خلاف اتحادیوں کی فتح کی 70ہویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی جا رہی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی شرکت کریں گے۔
شڈول میں، روسی اور امریکی صدور کے مابین ملاقات شامل نہیں۔ تاہم، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نارمنڈی میں صدر پیوٹن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
یہ اعلان ایسےمیں سامنے آیا جب مسٹر اوباما نے پولینڈ کے صدر برونیسلا کوموروسکی سے ملاقات کی، جو یورپ کے سہ ملکی دورے کے پہلے مرحلے پر پولینڈ میں ہیں، جس دوران متوقع طور پر یوکرین کے بحران پر بات چیت سرفہرست رہے گی۔
صدر نے روس پر بھی زور دیا کہ وہ یوکرین میں اپنی کارروائیاں بند کرے یا پھر مزید معاشی تعزیرات کے لیے تیار ہو جائے۔ اور اُنھوں نے صدر ولادیمیر پیوٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرین کے راہنما، پیٹرو پوروشنکو سے ملاقات کریں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اُنھوں نے پولینڈ کے صدر کے ساتھ یورپ میں نیٹو کی موجودگی میں اضافے کے لیے حمایت کے حصول پر بات کی، جس کی ضرورت مارچ میں روس کی طرف سے کرائمیا کو ضم کیے جانے کے نتیجے میں پیش آئی۔
صدر اوباما کے بقول، ’میں یہاں سے ہی دورے کا آغاز کر رہا ہوں، کیونکہ پولینڈ کی سلامتی کے بارے میں عزم کے ساتھ ساتھ یہ بات وسط اور مشرقی یورپ کے ہمارے اتحادیوں اور خود ہماری اپنی سلامتی کے لیے ازحد ضروری ہے، بلکہ لازمی ہے‘۔
پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونالڈ ٹسک کے ہمراہ ایک اخباری کانفرنس کرتے ہوئے، مسٹر اوباما نے کہا کہ دونوں راہنماؤں نے یوکرین کی طرف سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے کی ضرورت پر گفتگو کی، جس میں اُس کی قدرتی گیس کی رسد کا معاملہ بھی شامل ہے۔
مسٹر اوباما نے مسٹر ٹسک کو پولینڈ کی سلامتی کے حوالے سے امریکہ کی پختہ یقین دہانی کا بھی اعادہ کیا۔
بعدازاں، منگل کے ہی روز دونوں صدور، مسٹر اوباما اور مسٹر کوموروسکی، وسطی اور یورپی ممالک کے لیڈران کے ساتھ وسیع تر اجلاس کی میزبانی کریں گے۔
امریکی راہنما یہ دورہ اُس وقت کر رہے ہیں جب یوکرین کی حکومت روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ بدھ کو پولینڈ سے روانہ ہونے سے قبل، وہ یوکرین کے منتخب صدر پیٹرو پوروشنکو سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
صدر اوباما بدھ اور جمعرات کو برسلز میں امریکی اتحادیوں سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں، جس سے کچھ ہی دِن قبل سربراہان نے روس کی طرف سے اسی ہفتے سوچی میں منعقد کیے جانے والے ’گروپ آف ایٹ‘ کے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
یہ بائیکاٹ مارچ میں روس کی طرف سے کرائمیا کو ضم کرنے کی جوابی کارروائی کے طور پر کیا جا رہا ہے۔
فرانس میں جمعے کے روز، مسٹر اوباما نارمنڈی کے ’اوماہا بیچ‘ پر منعقد کی جانے والی ایک تقریب سے خطاب کریں گے، جو جنگ عظیم دوئم کے دوران نازی افواج کے خلاف اتحادیوں کی فتح کی 70ہویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی جا رہی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی شرکت کریں گے۔
شڈول میں، روسی اور امریکی صدور کے مابین ملاقات شامل نہیں۔ تاہم، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نارمنڈی میں صدر پیوٹن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔