صدر اوباما کے دورہ ایشیا کو امریکہ کی برآمدات میں اضافے اور یہاں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کی ایک کوشش کے طورپر بھی دیکھاجا رہا ہے ۔ اوباما انتظامیہ معاشی سست روی پر قابو پانے ، بند کارخانوں کو پھر سے چلانے اور 20 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے کی کوششیں کررہی ہے ۔ بھارت کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدوں اور انڈونیشیا سے تجارتی شعبے میں فروغ کے بعد صدر اوباما جنوبی کوریا کے ساتھ آزاد تجارت اور خطے میں ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ جیسے معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔
ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں واقع ایک کمپنی ایلی کاٹ کو تجارت کی قدر اچھی طرح معلوم ہے اور وہ آزاد تجارت یا فری ٹریڈ کی حمایت کرتی ہے۔ کمپنی کے سربراہ پیٹر بووی کہتے ہیں کہ کمپنی جو کچھ ہے وہ جوکچھ ہیں تجارت کی وجہ سے ہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی تجارت کی مرہون منت ہے۔ پاناما کینال کی تعمیر میں دلدل صاف کرنے کے لئے استعمال ہونے والی مشینیں ہم نے فراہم کی تھیں اور تب سے ہم تجارت پر توجہ دے رہے ہیں۔
ٕمخصوص قسم کی مشینیں بنانے میں ماہرپیٹرکا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی اپنی مصنوعات کی طلب کے مواقع تلاش کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ دلدل صاف کرنے کی اسی طرح کی ایک مشین آئندہ ہفتے میکسیکو بھیجی جا رہی ہے اور اسی طرح ایک اور مشین ایلومینیم کی کان میں کام کے لئے برازیل جا رہی ہے۔ اور اسی طرح ایک اور مشین ریت نکا لنے کے لیے نائیجیریا برآمد کی جا رہی ہے۔
پیٹر کہتے ہیں کہ امریکہ کو جنوبی کوریاکے ساتھ آزادانہ تجارت کےممکنہ معاہدے اور اسی طرح کے اور معاہدوں کی ضرورت ہے۔اگر یہ معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو پھر دلدل ہٹانے کی مشینری برآمد کرنے پر آٹھ فی صد ٹیکس ختم ہو جائے گا۔ امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان یہ معاہدہ 2007ءمیں ہوا تھا مگر کار اور گوشت کی صنعت کی مخالفت کی وجہ سے ابھی تک منظوری کے لئے کانگریس میں پڑا ہوا ہے۔
صدر اوباما نے G-20 ممالک کی کانفرنس سے قبل اس معاہدے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس کے باوجود کچھ ملکوں کا خیال ہے کہ امریکہ پیچھے رہ گیا ہے۔ کئی ایشیائی ممالک پہلے ہی دوطرفہ آزادانہ تجارت کے معاہدے کر چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ یورپی یونین نے جنوبی کوریا کے ساتھ آزادانہ تجارت کا اپنا ایک معاہدہ کیا ہے جس پر آئندہ جولائی سے عملدرآمد ہوگا۔
وزارت خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کا جنوبی کوریا اور دوسرے ایشیائی ممالک کے ساتھ مضبوط معاشی تعلقات بے حد اہم ہیں۔پچھلے ہفتے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے تنظیم آسیان کےراہنماؤں سے ملاقا ت کے بعد وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے ملائیشیا کا درہ کیا۔
وہائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کے بھارت کے دورے کے موقع پر امریکی اور بھارتی صنعتی اداروں نے 15ارب ڈالر کے تجارتی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جن سے امریکہ میں 50ہزار سے زائد ملازمتیں پیدا ہونگی۔ واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ کےڈینیئل آئیکن سن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں اب آزاد تجارت کے معاہدوں کی فضا ء پیدا ہو رہی ہے۔
کانگریس کے کچھ اراکین اور انتظامیہ میں کچھ لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمیں کوریا کے ساتھ جلد یہ معاہدہ کرنا چاہیے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ وسط مدتی انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کی جیت سے آزادانہ تجارت کےمعاہدوں کی منظوری آسان ہوجائے گی مگر رکاوٹیں موجود ہیں۔پچھلے ہفتے گاڑیاں بنانے والی کمپنی فورڈ نے کئی اخباروں میں اس معاہدے کی مخالفت میں اشتہار چھپوائے۔کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدر اوباما کو پچھلی انتظامیہ کی طرف سے کئے گئے معاہدوں کے بجائے دوسرےمعاہدوں پرتوجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
بالٹی مور کے پیٹرکا کہنا ہے کہ تجارت کو سیاسی معاملہ نہیں بنانا چاہیے۔ ان کا کہناتھا کہ انتخابات سے صاف واضح ہو گیا ہے کہ لوگ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس لئے کانگریس کو سمجھنا چاہیے کہ برآمدات سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور یہ کہ آزاد تجارت کے معاہدوں سے برآمدات کو فروغ ملتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔
ابھی یہ واضح نہیں تجارت کے یہ معاملات انتخابات کے بعد کی سیاست کی نظر ہو جائیں گے یا ان پر کوئی مثبت پیش رفت ہو سکے گی۔